تقویٰ کی حقیقت
لغت میں تقویٰ کامعنی ہے ’’خوب بچاؤ کرنا۔‘‘
[کشاف ۱/۱۹۔ لسان العرب ۳/۹۷۱]
شرعی لحاظ سے تقویٰ کے معانی علمائے کرام نے مختلف بیان کیے ہیں ۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جناب ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے تقویٰ کے معنی دریافت کیے تو انہوں نے کہا: ’’ کیا آپ کبھی خار دار راستہ پر چلے ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا : ہاں ۔ انہوں نے دریافت کیا : تو آپ نے کیا کیا ؟ فرمایا: میں آستین چڑھا لیتا ہوں اور محتاط ہوجاتا ہوں ۔ انہوں نے فرمایا: یہی تقویٰ ہے۔ [قرطبی ۱/ ۱۶۱]
٭ امام ابن رجب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
’’ تقویٰ یہ ہے کہ انسان جس چیز سے ڈرتا ہو ، اس کے اور اپنے درمیان ایسی ڈھال بنائے جس سے وہ خود کو بچائے۔‘‘
٭ امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
’’ متقین کا ہمیشہ یہ حال رہاہے کہ انہوں نے بہت سی حلال چیزوں کو حرام کے شبہ کی بنا پر چھوڑ دیا۔‘‘
٭ سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
’’ متقین کا نام متقی اس وجہ سے رکھا گیا ہے کہ انہوں نے ان چیزوں کوبھی چھوڑدیا تھا جن سے لوگ احتراز نہیں کرتے تھے۔‘‘
٭ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
’’ اللہ تعالیٰ کے اوامرو نواہی کی پابندی کرنا ، اور ا س کی ناراضی سے بچنا۔‘‘ [تحریر الفاظ التنبیہ ص۳۲۲]
|