۷۔ ڈھیل سے دھوکہ:
بہت سے لوگ گناہ پر گناہ کرتے جاتے ہیں ، جب انہیں نصیحت کی جائے اور انجام بد سے ڈرایا جائے تو کہتے ہیں : دیکھو دنیا میں کیا کچھ نہیں ہو رہا ، اور ہر طرح کے گناہ سے زمین بھری پڑی ہے۔ ہمارے گناہ کسی بھی طرح ان کفار اور ظالموں کے گناہوں سے زیادہ نہیں ہیں ، مگر آج تک اللہ تعالیٰ نے انہیں کوئی عذاب نہیں دیا بلکہ وہ ہر طرح کی نعمتوں سے مالا مال ہیں ۔ ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنی اس جہالت سے توبہ کریں ، انہیں اللہ تعالیٰ کی سنت اور طریقہ کار سے معرفت حاصل ہونی چاہیے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ دنیا ہر انسان کوعنایت کرتے ہیں ،خواہ وہ انسان اللہ کے ہاں پسندیدہ ہو یا نہ ہو۔ اور خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر۔ یہ لوگ دنیا ہی کے مزے لے سکتے ہیں ، آخرت میں ان لوگوں کا کوئی حصہ نہیں ۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنی سنت کے مطابق کسی بھی وقت عذاب میں پکڑ سکتے ہیں ۔ فرمان ِ الٰہی ہے:
﴿وَکَذٰلِکَ اَخْذُ رَبِّکَ اِذَا اَخَذَ الْقُرٰی وَہِیَ ظَالِمَۃٌ اِنَّ اَخْذَہُ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ﴾ (ہود: ۱۰۲)
’’ اور تمہاراپروردگار جب نافرمان بستیوں کو پکڑا کرتا ہے تو اس کی پکڑ اسی طرح کی ہوتی ہے بے شک اس کی پکڑ دکھ دینے والی (اور) سخت ہے۔‘‘
ایک دوسرے موقع پر اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے متعلق پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے ، تاکہ سمجھ دار لوگوں کے لیے عبرت کا سامان ہوسکے اور وہ اپنی اصلاح کر سکیں ۔ فرمایا:
﴿وَلَقَدْ اَرْسَلنَا اِلیٰ اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَاَخَذْنَاہُمْ بِالْبَاْسَائِ وَالضَّرَّائِ لَعَلَّہُمْ یَتَضَرَّعُوْنَ o فَلَوْلَا اِذْ جَائَ ہُمْ بَاْسُنَا تَضَرَّعُوْا وَلٰـکِنْ قَسَتْ قُلُوْبُہُمْ وَزَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْْطَانُ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَo فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُکِّرُوْا بِہٖ فَتَحْنَا عَلَیْْہِمْ اَبْوَابَ کُلِّ شَیْْئٍ حَتّٰی اِذَا فَرِحُوْا بِمَا اُوتُوْا اَخَذْنَاہُمْ بَغْتَۃً فَاِذَا ہُمْ مُّبْلِسُوْنَ o فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾ (الانعام:۴۲۔۴۵)
|