Maktaba Wahhabi

111 - 141
تقویٰ کی اہمیت اور ثمرات جب انسان کسی عظیم مقصود کی تلاش میں ہوتاہے تو اس خواب کے شرمندہ تعبیر ہونے کے لیے انتہائی احتیاط اور محنت سے کام لیتا ہے۔ایک اچھا اور ماہر آدمی جیسے بتاتا ہے ویسے کرتا ہے اور جس چیز سے منع کیا جاتاہے اس سے رک جاتاہے۔ مثلاً : اگر شوگر کے مریض کو صحت چاہیے ؛ اگر اس سے کہا جائے کہ اگر وہ بیماری سے نجات کا خواہش مند ہے تو اسے روزانہ ورزش کرنا ہوگی،اور فلاں فلاں چیز کھانے سے پرہیز کرنا ہوگا۔وہ ہر ممکن کوشش کرکے ان ہدایات پر عمل کرتا ہے کیوں کہ اسے یقین ہے کہ اس کا ڈاکٹر بہت ہی اچھا ہے ، اور اس کی ہدایات پر عمل کرنے سے اس کی صحت یقینی ہے۔ یہ تو ایک چھوٹے سے معاملہ کی مثال ہے۔پھر اس سے بڑے اور اہم ترین مسائل میں کیا حال ہوگا۔ جب انسان اللہ تعالیٰ کی جنت کا خواہش مند ، اور گناہوں کی بیماریوں سے نجات کا طلب گارہو ؛ تو پھر اسے کتنی ہی احتیاط کرنی ہوگی۔احتیاط کی یہ جملہ صورتیں تقویٰ کہلاتی ہیں ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَسَارِعُوْا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُہَا السَّمَاوَاتُ وَالْاَرْضُ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ﴾ (آل عمران: ۱۳۳) ’’اور اپنے رب کی مغفرت اور جنت کی طرف جلدی کرو، وہ جنت جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمینوں کے برابر ہے ،اسے متقین کے لیے تیار کیا گیا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی کئی آیات میں تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے ، اور تقویٰ کے ثمرات بیان کیے ہیں ، اور وہ راہیں بتائی ہیں جن پر چل کر انسان تقویٰ اختیار کرسکتا ہے۔ اورتقویٰ کی عظیم الشان منزلت یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنا خطبہ تقویٰ کے حکم والی آیات سے شروع کیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خطیبوں اور واعظوں کا بھی یہی طرز عمل رہا ہے۔
Flag Counter