’’ تم جہاں کہیں بھی ہو، اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، اور برائی کے بعد نیکی کرکے اس کو مٹادو اورلوگوں سے اچھے اخلاق سے پیش آؤ۔‘‘
اورفرمایا:
((اِتَّقِ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ ، وَخُذْ مَا تَعْرِفْ، وَدَعْ مَا تَنْکِرْ۔)) [مسنداحمد ۶۵۰۸۔شعیب ارناؤط نے اسے صحیح کہا ہے۔]
’’ اللہ سے ڈرو، معروف کوبجا لاؤ،اور منکر کوچھوڑ دو۔‘‘
تقویٰ کی بنیاد شرک سے بچنا ہے۔اور اس کے بعد نافرمانی اور چھوٹے گناہوں سے بچنا ہے۔ ، اور اس کے بعد شبہ والی چیزوں سے اجتناب، اور اس کے بعد فاضل چیزوں کا ترک کردینا تقویٰ کا مقام ہے۔ تقویٰ پر تین باتوں سے دلالت کی جا سکتی ہے :
۱۔ جس چیز کو پا نہیں سکا ، اس کے متعلق اللہ تعالی پر حسن توکل۔
۲۔ اور جو چیز مل گئی ہے اس پر حسن رضا مندی۔
۳۔ اور جو گزر چکا ہے اس پر اچھا صبر۔
٭ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ ﴿اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقَاتِہِ﴾ (آل عمران ۱۰۲)کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
’’اس کا معنی یہ ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے نافرمانی نہ کی جائے ، اور اسے یادرکھا جائے بھلایا نہ جائے۔ اور اس کا شکر ادا کیا جائے،نا شکری نہ کی جائے۔‘‘
****
|