موجود ہیں ۔ان میں سے ایک قصہ وہ بھی ہے جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایک قوم کے قبیلے پر سورئہ فاتحہ سے دم کرکے بکریاں لی تھیں ، پھر رسول نے فرمایا تھا : تمہیں کیا معلوم تھا کہ اس سے دم بھی کیا جاتا ہے ؟ اللہ قرآن کے شفا ہونے کے بارے میں فرماتے ہیں :
﴿ قُلْ ہُوَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ہُدًی وَّشِفَائٌ وَالَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ فِیْ اٰذَانِہِمْ وَقْرٌ﴾ (فصلت:۴۴)
’’کہہ دو کہ جو ایمان لاتے ہیں ان کے لیے ہدایت اور شفا ہے اور جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں گرانی (یعنی بہرا پن) ہے۔‘‘
۳۲۔ تقویٰ ہی عزیمت ہے:
تقویٰ کے مقام ومنزلت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسے عزیمت والے کاموں میں سے قرار دیا ہے۔ فرمایا:
﴿وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ﴾ (آل عمران :۱۸۶)
’’تو اگر صبر اور پرہیزگاری کرتے رہو گے تو یہ بڑی ہمت کے کام ہیں ۔‘‘
۳۳۔ کامیابی اور نجات:
تقویٰ نجات اور کامیابی کے اہم اسباب میں سے ہے ، فرمایا:
﴿وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ﴾ (البقرہ:۱۸۹)
’’ اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ نجات پاؤ۔‘‘
۳۴۔ تقویٰ کی بنا پر دوستی کو دوام :
تقویٰ کی بنیاد پر قائم دوستی ہی اللہ کی رضا کے لیے ہوتی ہے ، اور اسے دنیا اور آخرت میں بقا اور دوام نصیب ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ اَلاَْخِلَّائُ یَوْمَئِذٍ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ ﴾ (الزخرف: ۶۷)
’’ آج کے دن دوست ایک دوسرے سے منہ موڑ کر چلے جائیں گے سوائے متقین کے۔
|