تمہیں معاف کردے گا۔‘‘
توبہ انسان کے اندر خیرکے موجود ہونے کی نشانی ہے ؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((کُلُّ بَنِيْ آدَمَ خَطّاً ئٌ، وَخَیْرُ الْخَطَّائِیْنَ التَّوَّابُوْنَ۔)) [ترمذی ،حاکم]
’’ تمام بنی آدم خطا کار ہیں اور بہتر خطا کار توبہ کرنے والے ہیں ۔‘‘
عذاب سے نجات :
دنیا میں گناہوں کا سرزد ہوجانا بھی حکمت الٰہی ہے۔انسان جب اس گناہ سے توبہ کرتا ہے ،اللہ تعالیٰ کے سامنے ندامت کے آنسو بہاتا اور گریہ وزاری کرتا ہے ،اپنے آپ کو ملامت کرتا اور اللہ کی بزرگی اور اس کے غلبہ کا اظہار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے پر پیار آتا ہے ، اور وہ اس سے محبت کرنے لگتے ہیں ۔اور اللہ تعالیٰ کو یہ ادا ایسی بھاتی ہے کہ اس پر اتنا پیار آتا ہے، کہ ایک مقام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
((وَالَّذِیْ نَفْسِی بَیَدِہِ لَوْلَمْ تَذْنُبُوْا، لَذَہَبَ اللّٰہُ تَعَالیٰ بِکُمْ ، وَلَجَآئَ بِقَوْمٍ یَّذْنُبُوْنَ،وَیَسْتَغْفِرُوْنَ اللّٰہ تَعَالیٰ فَیَغْفِرُ لَہُمْ۔)) [مسلم]
’’ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے ! اگرتم بالکل ہی گناہ نہ کرو ، تو اللہ تعالیٰ تم کو اس دنیا سے لے جائے گا، اور تمہاری جگہ ایسی قوم لے آئے گا، جو گناہ بھی کریں گے اور پھر اللہ تعالیٰ سے اس پر معافی بھی مانگیں گے ، اور اللہ تعالیٰ ان کے گناہ معاف کردیں گے۔‘‘
اس سے مراد ہمیں گناہوں کی چھٹی دینانہیں بلکہ یہ بتانا ہے کہ گناہ کرنا اتنا بڑا جرم نہیں ، جتنا اس گناہ پر اصرار کرنا ہے۔ اور انسان سے بشری تقاضے کے تحت گناہ کا ہونا ایک عام سی چیز ہے۔
صحیح توبہ کرنے والے انسان پرمزید گناہ کے خوف اوراندیشہ کا رہنا اوراس وجہ سے
|