بِقُرْابِ الْاَرْضِ خَطَایَا، ثُمَّ أَتَیْتَنِيْ لَا تُشْرِکُ بِيْ شَیْئاً ،لَأَتَیْتُکَ بِقَرَابِہَا مَغْفِرَۃٌ۔)) [ترمذی صحیح ۳۵۴۰]
’’ اے ابن آدم! جب تک تونے مجھے پکارا ، اور مجھ سے امید رکھی ، میں تمہارے سب گناہ معاف کرتا رہوں گا ، اور مجھے اس کی کوئی پروا نہیں ہوگی، اے ابن آدم! اگر تیرے گناہ آسمان کو چھونے لگیں ، اور پھر تو مجھ سے معافی مانگے میں تجھے معاف کرودوں گا ، اور مجھے کوئی پروا نہیں ہوگی۔ اے ابن آدم ! اگر تم میرے پاس زمین بھرگناہ لاؤ، اور تم نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو، میں تیرے لیے اتنی ہی مغفرتیں لے آؤں گا۔‘‘
۱۱۔ گناہوں کی معافی : استغفار کی کثرت ہر پریشانی سے نجات ، اور گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَنْ لَزِمَ الْاِسْتَغْفَارَ جَعَلَ اللّٰہُ لَہٗ مِنْ کُلِّ ضِیْقٍ مَخْرَجاً، وَمِنْ کُلِّ ھُمٍّ فَرَجاً وَرِزْقَہُ مِنْ حَیْثُ لَاْ یَحْتَسِبُ۔)) [ابو داؤد و ابن ماجۃ]
’’ جس نے استغفار کو اپنا معمول بنالیا، اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہرتنگی سے نکلنے کی راہ ، اور ہر غم سے چھٹکارہ کا سامان کردیتے ہیں ، اور اس کو ایسی جگہ سے روزی عطا فرماتے ہیں جہاں سے اس کاگمان بھی نہ ہو۔‘‘
ایک اور مقام پر سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا:
((وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہِ ! لَوْ أَخْطَأْتمُ حَتَّی تَمْلَأَ خَطَایَاکُمْ مَا بَیْنَ السَّمَآئِ وَالْأَرْضِ ثُمَّ اسْتَغْفَرْتُمُ اللّٰہَ تَعَالیٰ لَغَفَرَ لَکُمْ۔)) [ رواہ أحمد]
’’ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ ٔ قدرت میں میری جان ہے ! اگر تم اتنے گناہ کرو کہ زمین وآسمان ان سے بھر دو اور پھر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگو تو اللہ تعالیٰ
|