Maktaba Wahhabi

77 - 141
دوسرا وقت ہر انسان کے ساتھ خاص ہے، یعنی اس کی سانس اکھڑنے سے قبل توبہ کر لینی چاہیے۔اگر ایسا نہ ہوا تو اس کا معاملہ بہت ہی خطرہ میں ہے۔ اس وقت کی بابت حدیث میں ہے : ((إِنَّ اللّٰہَ یَقْبَلُ تَوْبَۃَ الْعَبْدِ مَالَمْ یُغَرْغِرْ۔)) [رواہ ترمذی] ’’ اللہ تعالیٰ بندے کی سانس اکھڑنے تک اس کی توبہ قبول کرتے ہیں ۔‘‘ توبہ کی شرائط: سچی توبہ کی کچھ شرطیں ہیں ، جن کے بغیر توبہ قبول نہیں ہوتی۔ ۱۔ سب سے پہلی اور بنیادی چیز توبہ کی قبولیت کے لیے اسلام ہے۔ کافر کی توبہ قبول نہیں ہوتی، جب تک کہ وہ دائرۂ اسلام میں داخل نہ ہوجائے۔ اس کی توبہ ہی اسلام قبول کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَلَیْسَتِ التَّوْبَۃُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّئَاتِ حَتَّی اِذَا حَضَرَ اَحَدَہُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّیْ تُبْتُ الآنَ وَلاَ الَّذِیْنَ یَمُوْتُوْنَ وَہُمْ کُفَّارٌ اُولٰٓـئِکَ اَعْتَدْنَا لَہُمْ عَذَاباً اَلِیْماً ﴾ [النساء:۱۸] ’’ اور ایسے لوگوں کی کوئی توبہ نہیں ہوتی جو (ساری عمر) برے کام کرتے رہے یہاں تک کہ جب اُن میں سے کسی کی موت آموجود ہو تو اُس وقت کہنے لگے کہ اب میں توبہ کرتا ہوں اور نہ اُن کی (توبہ قبول ہوتی ہے)جو کفر کی حالت میں مریں ۔ ایسے لوگوں کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت: ﴿ بَلْ یُرِیْدُ الْاِنسَانُ لِیَفْجُرَ اَمَامَہٗ﴾ (قیامہ:۴) ’’بلکہ انسان چاہتا ہے کہ اس کے گناہ اس کے آگے ہوں۔‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں : ’’یعنی وہ گناہ تو آگے بھیجتا ہے اور توبہ کرنے میں تاخیر کرتا ہے ، اور کہتا ہے کہ عنقریب توبہ کرلوں گا، یہاں تک کہ انتہائی بری حالت میں اس کی موت آجاتی ہے۔‘‘ ۲۔ گناہ کا اعتراف : توبہ اس وقت تک درست نہیں جب تک گناہ کی معرفت نہ ہو اور اس
Flag Counter