کا اعتراف نہ کرلیا جائے۔ اور اس کے برے انجام کار سے معافی نہ مانگ لی جائے۔ حدیث میں آتا ہے :
((إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا اعْتَرَفَ ثُمَّ تَابَ ، تَابَ اللّٰہُ عَلَیْہِ۔)) [ بخاری مع فتح الباری ۴/ ۴۲]
’’ جب انسان گناہ کا اعتراف کرکے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتے ہیں ۔‘‘
۳۔ اخلاص :یعنی صدق دل سے توبہ کی جائے ،صرف زبانی دعویٰ نہ ہو،اور گناہ کو اللہ کی رضا کے لیے اس کے خوف سے ترک کیا جائے۔
۴۔ اقلاع: جس گناہ سے توبہ کی جارہی ہے ، اسے فوراً چھوڑدیا جائے ، اسی میں لگا نہ رہے۔
۵۔ عدم رجوع: اس بات کا پکا عزم ہو کہ آئندہ کے لیے یہ گناہ دوبارہ نہ کیا جائے گا۔
۶۔ ندامت وپشیمانی : حدیث میں آتا ہے :
((اَلنَّدْمُ التَّوْبَۃُ۔)) [رواہ احمد و ابن ماجہ]
’’ ندامت ہی اصل توبہ ہے۔‘‘
یعنی انسان گناہ کے ہوجانے پر خوش نہ ہو، بلکہ اس کے دل میں گہری ندامت اور اس بات کا احساس ہوکہ جو گناہ ہوگیا ، اس سے نہیں ہونا چاہیے تھا ، کیوں کہ یہ اللہ کی نافرمانی کاکام ہے۔یحییٰ بن معاذ کہتے ہیں :
’’ گناہوں میں بڑھتے ہوئے سب سے بڑا دھوکہ بغیر ندامت کے اللہ تعالیٰ سے معافی کی امید ؛ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے بغیر اس کی قربت کی امید؛ اور جہنم کے بیج بو کر جنت کے پھلوں کا انتظار ؛گناہوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار لوگوں کے گھر کی امید؛ بغیر عمل کے اچھے بدلہ کا انتظار؛ اور اللہ تعالیٰ سے گناہوں کے ساتھ ساتھ امید باندھنا ہے۔‘‘ [ایقاظ الہمم العالیۃ ۱۳۰]
|