درست اور فطرت کے مطابق ہے ، تو ایسا انسان اللہ کے ہاں بلند مقام رکھتاہے ،اوریہی تقویٰ کا مفہوم ہے۔اوراگر یہ امور نفس کی فطری پکار کی مخالفت پر مبنی ہیں ، اوران میں غلط طریقہ کار استعمال کیا جارہا ہے تو یہ وہی حیوانیت ہے جس کی اصلاح کے لیے کوشش کرنی ہے،اپنی منزل اورراہ کاتعین کیجیے۔
چوتھارخ : تاریخ میں ایسے واقعات کی کمی نہیں ہے کہ کسی بڑے آدمی کی اصلاح اورتوبہ کئی ایک لوگوں کی ہدایت اور نجات کا سبب بن جاتی ہے ،اور اس طر ح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمان سچ ثابت ہوتا ہے جس میں آپ نے اللہ کی رضا کے لیے کسی چیز کے چھوڑنے پر اس سے بہتر ملنے کا کہا ہے۔‘‘
۶۔ رحمت کا غلط مفہوم:
بعض مرتبہ انسان گناہ میں سرکشی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت کا غلط اورخود ساختہ مفہوم پیش کرتا ہے۔اگر ایسا کرنے سے منع کیا جائے تو کہتا ہے ،چھوڑو یار ! یہ مولویانہ باتیں ہیں ،اللہ بڑا ہی غفور ورحیم ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا یہ کہنا بالکل سو فیصد درست ہے ، مگر اس کا استدلال سوفیصد غلط اور حماقت پر مبنی ہے۔ اللہ کی رحمت ان کے قریب ہے ،جو اس کی رحمت کے متلاشی ہوں ،داور جو اس کے غضب کودعوت دیں ان کے لیے وہی ہے جس کے لیے وہ اسباب مہیاکررہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿نَبِیّئْ عِبَادِیْ اَنِّیْ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُO وَ اَنَّ عَذَابِیْ ہُوَ الْعَذَابُ الْاَلِیْمُ ﴾ (الحجر: ۴۹۔۵۰)
’’ میرے بندوں کو بتادیجئے کہ میں بڑا ہی غفور رحیم ہوں ،اور یہ کہ میرا عذاب بھی بہت سخت عذاب ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ سے حسن ِ ظن رکھناچاہیے؛ رحمت اور مغفرت کی امید کے ساتھ نجات کے اسباب بھی ہونے چاہئیں ۔ اگر انسان مکمل طور پر اپنی ہلاکت کے سامان کررہا ہو، اور امید رحمت کی لگائے رکھے تواس آد می کی عقل کو داد دینی چاہیے۔
|