’’ اور جب ہم کسی بستی کی ہلاکت کا ارادہ کرلیتے ہیں تو وہاں کے خوشحال لوگوں کوحکم دیتے ہیں ، اور وہ اس بستی میں کھلی نافرمانی کرنے لگتے ہیں ؛ توان پر عذاب کی بات ثابت ہوجاتی ہے ، پھر ہم اسے تباہ وبرباد کردیتے ہیں ۔‘‘
۵۔ عام عذاب :
اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمام لوگوں نیک اور بد کے لیے برابر کا عذاب جس سے کوئی بھی بچ نہیں پاتا ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّاتُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃً وَاعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ﴾ (الانفال:۲۵)
’’اور اس دن کے فتنہ سے بچو جس کا شر صرف ظالم لوگوں کے ساتھ خاص نہیں ہوگا، اور جان لو کہ بے شک اللہ تعالیٰ بہت سخت سزا دینے والے ہیں۔‘‘
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
(( إِنَّ الْحَبَاریَ لَتَمُوْتُ فِي وَکْرِہَا بِظُلْمِ الظَّالِمِ…۔)) [ الجواب الکافي لابن قیم]
’’ گنہگار کے گناہ کی وجہ سے پرندے اپنے گھونسلوں میں ہلاک ہوتے ہیں ۔‘‘
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
((إِنَّ الضَّبَّ لَیَمُوْتُ ہُزَالاً فِيْ حُجْرِہِ بِذَنْبِ ابْنِ آدَمَ۔))[النہایۃ في غریب الحدیث والاثر۳/۱۵۰]
’’ بے شک گوہ اپنے سوراخ میں ابن آدم کے گناہ سے دبلا ہوکر مرجاتی ہے۔‘‘
اس سے مراد یہ ہے کہ ان گناہوں کی وجہ سے بارش روک لی جاتی ہے ، اور رزق تنگ کردیا جاتا ہے۔
****
|