اس کی انتہائی اہمیت کی وجہ سے اپنے نبی کو بھی تقویٰ اختیار کا حکم دیا ہے۔ ارشاد الٰہی ہے :
﴿ یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰہَ وَلَا تُطِعِ الْکَافِرِیْنَ وَالْمُنَافِقِیْنَ ﴾ (الاحزاب:۱)
’’ اے نبی! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور کافروں کی پیروی نہ کرو۔‘‘
تقویٰ کی اتنی بڑی اہمیت اور اللہ کے ہاں اس کااتنا بلند مقام ہے کہ جیسے توحید کی دعوت کو پھیلانا بڑا مشکل کام تھا، ا س کے لیے اللہ تعالیٰ نے انتہائی صابر،بہادر، پاک دامن، عفو و درگزر کے پیکر لوگوں کا انتخاب کیا ، ایسے ہی لوگوں کو تقویٰ کی دعوت دینے کے لیے نبوت کے حاملین عالی مقام لوگوں کا انتخاب کیا ، اورفرمایا:
﴿ یُنَزِّلُ الْمَلآئِکَۃَ بِالْرُّوْحِ مِنْ اَمْرِہِ عَلیٰ مَنْ یَّشَائُ مِنْ عِبَادِہِ اَنْ اَنذِرُوْا اَ نَّہُ لَا اِلٰـہَ اِلَّااَنَاْ فَاتَّقُوْنِ ﴾ (النحل:۲)
’’وہی فرشتوں کو پیغام دے کر اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس کے پاس چاہتا ہے بھیجتا ہے کہ (لوگوں کو) بتا دوکہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تومجھ ہی سے ڈرو۔‘‘
٭ منزل خواہ دنیا کی حاصل کرنا ہو یا آخرت کی؛ اللہ نے تقویٰ کو انسان کے لیے بہترین زادِراہ قرار دیا ہے ، ارشاد الٰہی ہے :
﴿وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَیٰ وَاتَّقُوْنِ یَا اُوْلِی الْاَلْبَابِ﴾(البقرہ:۱۹۷)
’’ زاد راہ اختیار کرو، سب سے بہترین زاد راہ تقویٰ ہے اے عقل مند لوگو! مجھ سے ہی ڈرو۔‘‘
٭ چونکہ تقویٰ کئی ایک عادت کی چیزوں کوچھوڑنے اور راہ حق اختیار کرنے کا نام ہے،اس لیے اس کی دعوت بھی توحید کی دعوت کی طرح چبھتی ہے؛ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان متکبر لوگوں کی مذمت کی ہے جو نصیحت اور تقویٰ اختیار کرنے کی بات قبول نہیں کرتے ،
|