عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ کَبِیْرٍ﴾ (ہود:۳)
’’ یہ کہ تم اپنے رب کے ہاں سے گناہوں کی معافی مانگو، اور اس کی جناب میں توبہ کرو، وہ وقت مقررہ تک تم کو اچھا سامان زندگی دے گا، اور ہر زیادہ عمل کرنے والے کو زیادہ ثواب دے گا ۔‘‘
۵۔ آسمانوں سے برکات کا نازل ہونا ، اورزندگی میں خوشحالی کا لوٹ آناقوت ، توانائی اور صلاحیت میں اضافہ: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔
﴿وَیٰقَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْا اِلَیْْہِ یُرْسِلِ السَّمَائَ عَلَیْْکُمْ مِّدْرَارًا وَیَزِدْکُمْ قُوَّۃً اِلٰی قُوَّتِکُمْ وَلاَ تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِیْنَ ﴾ (ہود :۵۲)
’’ اے میری قوم کے لوگو ! تم اپنے رب سے گناہوں کی معافی مانگو؛ اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرو، تاکہ وہ تم پر برسنے والے بادل بھیج دے ، اور تمہاری طاقت پر اور طاقت بڑھا دے ، اور تم مجرم بن کر رو گردانی نہ کرو۔‘‘
۶۔ نیک اولاد ،بابرکت روزی ، خوش حالی اور آسائش توبہ ہی کے مرہون منت ہے۔ نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کے سامنے یہی دعوت پیش کی تھی :
﴿فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا o یُرْسِلِ السَّمَائَ عَلَیْْکُمْ مِّدْرَارًا o وَیُمْدِدْکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَل لَّکُمْ جَنَّاتٍ وَّیَجْعَلَ لَّکُمْ اَنْہَارًا ﴾ (نوح ۱۰- ۱۲)
’’ میں نے کہا : اپنے رب سے اپنے گناہوں پر استغفار کرو؛ وہ یقیناً بڑا ہی بخشنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان کو خوب برستا ہوا چھوڑے گا، اورتمہیں خوب پے در پے مال اور اولاد میں ترقی دے گا ،اور تمہیں باغات دے گا اور تمہارے لیے نہریں نکال دے گا۔‘‘
۷۔ گناہ کا نیکیوں سے تبدیل ہونا : صرف یہی نہیں بلکہ اللہ تعالی توبہ کرنے والے کے
|