تقویٰ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بلند شان کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ فرمایا:
﴿یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰہَ وَلَا تُطِعِ الْکَافِرِیْنَ وَالْمُنَافِقِیْنَ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْماً حَکِیْماً ﴾ (الاحزاب:۱)
’’ اے پیغمبر! اللہ سے ڈرتے رہنا اور کافروں اور منافقوں کا کہا نہ ماننا، بے شک اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔‘‘
تقویٰ ہی ایسی چیز ہے جو توحید کی طرح تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت کا مرکز ومحور اور روحانیت کی اصل اور نچوڑ ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے کی امتوں کو بھی اسی طرح تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا تھا۔ فرمایا:
﴿وَلَقَدْ وَصَّیْنَا الَّذِیْنَ اُوتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَاِیَّاکُمْ اَنِْ اتَّقُوا اللّٰہَ وَاِنْ تَکْفُرُوْا فَاِنَّ لِلّٰہِ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَکَانَ اللّٰہُ غَنِیّاً حَمِیْداً ﴾ (النساء:۱۳۱)
’’اور جن لوگوں کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی اُن کو بھی اور آپ کو بھی ہم نے تاکیدی حکم دیاہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو اور اگرتم کفر کرو گے تو جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اللہ ہی کا ہے اور اللہ بے پروا اور حمدو ثناکا مستحق ہے۔‘‘
مقام نبوت کے حاملین جیسے عالی سیرت لوگ بھی اس تقویٰ کے اولین مخاطب رہے۔ جتنی بڑی ان کی ذمہ داری تھی ، او رجتنی بلند ان کی سیرت تھی اسی قدر انہیں بھی بھر پور طریقے سے تقویٰ پر کاربند رہنے کا حکم دیا گیا۔ فرمایا:
﴿یٰٓاَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحاً اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌo وَاِنَّ ہَذِہِ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّاَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُوْنِ﴾ (المومنون:۵۱-۵۲)
|