Maktaba Wahhabi

97 - 462
صراحت بھی کر دی ہے، بلکہ ’’سنن‘‘ میں تو اس مسئلے میں جہر بسملہ کی روایات کے ضعف کی تصریح کے ساتھ ساتھ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث: ’’إني قسمت الصلاۃ بیني وبین عبدي نصفین فنصفھا لہ یقول عبدي إذا افتتح الصلاۃ ببسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم‘‘ کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’بسم اللہ کے ذکر کرنے میں عبداللہ بن زیاد بن سمعان منفرد ہے اور وہ متروک الحدیث ہے۔ ثقات میں سے امام مالک، ابن جریج، روح بن قاسم، ابن عیینۃ، ابن عجلان، الحسن بن الحر، ابو اویس رحمہم اللہ وغیرہ نے العلا سے بالاتفاق بسم اللہ کے الفاظ ذکر نہیں کیے۔‘‘ پھر فرماتے ہیں: ’’واتفاقھم علی خلاف ما رواہ ابن سمعان أولیٰ بالصواب‘‘[1] اہلِ علم حضرات اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ امام دارقطنی رحمہ اللہ یہاں اس روایت کو صحیح قرار دے رہے ہیں، جس سے حنفی مکتبِ فکر کی پرزور تائید ہوتی ہے۔ علامہ زیلعی رحمہ اللہ حنفی نے اسی روایت کو آہستہ بسم اللہ پڑھنے پر نص صحیح قرار دیتے ہوئے کہا ہے: ’’ھذا قاطع تعلق المتنازعین وھو نص لا یحتمل التأویل ولا أعلم حدیثاً في سقوط البسملۃ أبین فیہ‘‘[2] ’’یہ حدیث بسم اللہ آہستہ پڑھنے کے لیے سب سے بڑی واضح دلیل ہے، جس میں تاویل کی گنجایش نہیں۔‘‘ ناظرین خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ امام دارقطنی رحمہ اللہ کی اس تصریح کے ہوتے ہوئے بھی وہ شافعیت کے ساتھ غلو رکھتے تھے؟ جیسا کہ کہا گیا یا سمجھا گیا ہے۔ قطعاً
Flag Counter