Maktaba Wahhabi

82 - 462
انھوں نے فرمایا: تمھاری مراد کیا ہے؟ میں نے کہا: ’’دارقطنی رحمہ اللہ بغداد میں، عبدالغنی رحمہ اللہ مصر میں، ابن مندہ رحمہ اللہ اصبہان میں اور الحاکم رحمہ اللہ نیشاپور میں۔‘‘ تو وہ لمحہ بھر خاموش رہے، پھر فرمایا: ’’دارقطنی عللِ حدیث کا سب سے زیادہ علم رکھتے تھے، عبدالغنی انساب میں، ابن مندہ احادیث میں اور حاکم تصنیف میں ان سے بہتر ہیں۔‘‘[1] لیکن اگر اس بحث کو ذرا وسیع کیا جائے اور بحیثیت مجموعی ان ائمہ کرام کے مراتب و مدارج کو پرکھا جائے تو حقیقتِ حال کچھ اس کے برعکس معلوم ہوتی ہے اور وہ یہ کہ امام حاکم رحمہ اللہ اور ابن مندہ رحمہ اللہ کے درمیان جو تفاوت ہے وہ امام دارقطنی رحمہ اللہ کے تبصرہ سے معلوم ہو چکا ہے۔ رہے حافظ عبدالغنی رحمہ اللہ تو وہ امام دارقطنی کے خوشہ چین ہیں اور ’’قال أستاذي وسمعت أستاذي‘‘ کہتے نظر آتے ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ امام حاکم رحمہ اللہ کا علمی میدان امام دارقطنی رحمہ اللہ کے مقابلے میں کس قدر وسیع ہے۔ حسنِ تصنیف جس کا سہرا ’’الزنجانی‘‘ نے امام حاکم کے سر پر دھرا ہے۔ اس کے متعلق جہاں تک تاریخ و سیر میں ان کے تذکرہ کا تعلق ہے اس کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ امام دارقطنی رحمہ اللہ تصنیف کے اعتبار سے بھی امام حاکم رحمہ اللہ سے کسی صورت کم نہ تھے۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ کی سنن میں گو ضعیف اور منکر و شاذ وغیرہ روایات آگئی ہیں، لیکن اس کتاب کی وہ حیثیت نہیں، جو امام حاکم رحمہ اللہ کی ’’المستدرک‘‘ کو ہے۔ اس میں انھوں نے اگرچہ کافی جانفشانی سے کام لیا ہے۔ تاہم محققین نے ان کی تصحیح پر کڑی نکتہ چینی کی ہے۔ علامہ ذہبی رحمہ اللہ تو اس قدر ان سے نالاں ہیں کہ کہیں انھیں
Flag Counter