Maktaba Wahhabi

73 - 462
نہیں۔ جس میں پھنس کر انسان عزم و استقلال کھو بیٹھتا اور دل و دماغ کی شگفتگی کھو بیٹھتا ہے، لیکن محدثین عظام ۔شکر اللّٰه سعیھم۔کے لیے اس قسم کی مشکلات ان کے شاہراہ علم کے لیے سد راہ نہ بن سکیں۔ کیوں کہ وہ عزم و استقلال کے علاوہ علمِ دین کی لذت میں اس قدر سرشار رہتے کہ انھیں اپنی تکالیف کا احساس تک نہ ہوتا۔ تذکرہ نویسوں نے محدثین کے تذکرہ میں اس قسم کے متعدد واقعات نقل کیے ہیں، ان ہی شخصیتوں میں ایک امام دارقطنی رحمہ اللہ بھی تھے۔ طلبِ علم کی زندگی ہی نہیں، بلکہ اس کے بعد بھی ان کی زندگی نہایت فقر و مسکنت میں گزری۔ مصر میں آپ ۳۵۷ھ میں تشریف لے گئے اور وہاں کے جن شیوخ سے استفادہ کیا ان میں ایک ’’حافظ ابو الفضل جعفر بن فضل المعروف بابن خنزابتہ رحمہ اللہ ‘‘ بھی تھے، انھوں نے آپ کی عزت کے ساتھ ساتھ امداد بھی کی۔ ابو الفضل رحمہ اللہ وقت کے وزیراعظم ہونے کے علاوہ بہت بڑے محدث بھی تھے۔ ظاہر ہے کہ امام دارقطنی رحمہ اللہ کا ان کی طرف سفر کرنا محض دولت کی غرض سے نہ تھا، بلکہ اصل مقصد حصولِ علم تھا۔ چنانچہ ’’کتاب المدبج‘‘ میں امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ان سے روایات بھی نقل کی ہیں۔[1] خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے امام دارقطنی رحمہ اللہ کا ان کے پاس جانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ابو الفضل رحمہ اللہ مصر میں احادیث لکھوایا کرتے تھے اور ان کا ارادہ تھا کہ ایک مسند لکھوائی جائے تو امام دارقطنی رحمہ اللہ وہاں گئے اور کافی عرصہ تک ان کے پاس رہے اور المسند کی تصنیف کی اور ابو الفضل رحمہ اللہ نے انھیں کافی مال دیا۔[2]
Flag Counter