Maktaba Wahhabi

461 - 462
رفقا کے علاوہ حضرت چیم رحمہ اللہ بھی ہمراہ تھے۔ حضرت صوفی صاحب انتہائی کمزور ہو چکے تھے، چلنا پھرنا ایک مشکل ترین مسئلہ بن گیا تھا۔ بس ایک بہانے سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے مجاہد کو بالکل آخری ایام میں اپنے گھر کی حاضری کی سعادت بخشی، ورنہ اتنے طویل سفر کی صعوبتیں ان کے بس کی بات نہ تھی۔ حج کے اس بابرکت سفر میں حضرت چیمہ رحمہ اللہ نے حضرت صوفی صاحب کی جی بھر کر خدمت کی، اپنی کمر پر اٹھا کر بیت اللہ شریف لے جاتے، بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کراتے۔ یہ کام اُجرت پر ہو سکتا تھا، ہوتا بھی ہے، مگر انھوں نے اسے انتہائی سعادت سمجھا اور خدمت کا حق ادا کیا۔ اس طرح کا معاملہ مدینہ طیبہ میں مسجدِ نبوی اور روضۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی رہا۔ روضۂ اقدس کے نزدیک انتظامی پیچیدگیوں کی بنا پر اور کچھ خرافیوں کی ناروا حرکتوں کے سبب وہاں کے نگہباں اور خدام روضۂ مقدسہ کے پاس زیادہ دیر ٹھہرنے نہیں دیتے۔ مگر مولانا نے ذکر کیا کہ میں نے حضرت صوفی صاحب کو اٹھائے رکھا۔ روضۂ اقدس کے قریب درود و سلام کے لیے جب لے گیا تو حضرت صوفی صاحب دیر تک وہاں درود شریف پڑھتے رہے، تاآنکہ انھوں نے خود فرمایا کہ اب آگے نکل چلو۔ یوں اس پورے سفر میں ان کی خوب خدمت کی اور ان سے دعائیں لیں۔ حضرت صوفی صاحب مستجاب الدعوات تھے اور ان کی اس کرامت کو زمانہ جانتا ہے۔ اس ناطے میں نے دیکھا جب بھی کسی نے اپنی پریشانی کا اظہار کیا مولانا مرحوم اسے حضرت صوفی صاحب کے پاس لے جاتے اور ان سے دعا کرواتے۔ ایک بار حضرت والد صاحب مرحوم تشریف لائے۔ مولانا چیمہ صاحب سے ملاقات پر باتوں باتوں میں بڑی حسرت سے ذکر کیا کہ میرے بھانجے کے یہاں نرینہ اولاد
Flag Counter