Maktaba Wahhabi

440 - 462
’’آج رات مجھے حضرت سید امام عبدالجبار صاحب رحمہ اللہ خواب میں ملے ہیں فرما رہے تھے کہ جو مسند میں نے تمھارے سپرد کی اس کی آبرو رکھنا۔[1] حالات سے متأثر ہو کر کہیں چلے نہ جانا اللہ تعالیٰ تمھاری مدد فرمائیں گے۔‘‘ مدرسہ غزنویہ چھوڑنے کا ارادہ تو پہلے بھی نہ تھا اس خواب نے ان کی ڈھارس بندھائی۔ پوری دل جمعی سے اس مسند کی آبرو رکھی اور سیکڑوں نہیں، بلکہ ہزاروں تلامذہ نے ان سے کسبِ فیض کیا۔ حضرت چیمہ صاحب یہ واقعہ بڑی دل سوزی سے بیان کرتے اور محض تنخواہ کی خاطر اِدھر اُدھر جانے کو طریقۂ سلف کے منافی سمجھتے تھے۔ حضرت مولانا نیک محمد رحمہ اللہ سے حدیث کے علاوہ مولانا چیمہ صاحب نے علمِ وراثت کی مشہور درسی کتاب سراجی بھی پڑھی۔ اسی ناطے خود مولانا مرحوم وارثت سے متعلقہ مسائل چٹکیوں میں حل کرتے تھے۔ ایک مرتبہ انھوں نے تحدیثِ نعمت کے طور پر اس بات کا بھی اظہار فرمایا کہ حضرت مولانا نیک محمد فرمایا کرتے تھے کہ محمد اسحاق، سراجی تم نے مجھ سے پڑھی ہے، مگر اب یہ تم کو مجھ سے بہتر طور پر آتی ہے۔ حضرت مولانا چیمہ مرحوم تبخیرِ معدہ کے مریض تھے، مگر بہت کم حضرات کو علم ہے کہ اس کا سبب دراصل یہی امرتسر میں مدرسہ غزنویہ کا قیام تھا۔ چنانچہ اس سلسلے میں انھوں نے ذکر کیا کہ میرے کھانے کا انتظام ایک ایسے گھر میں ہوا، جہاں سے صرف مجھے سوکھی روٹی ملتی اور میں پانی کی مدد سے اسے کھاتا تھا، بلکہ کئی بار مجھے بھوکا رہنا
Flag Counter