Maktaba Wahhabi

432 - 462
کامیاب ہو گئی، یہ کام اتنا دشوار تھا کہ اس کو میرے سوا کوئی کر نہ سکتا تھا۔‘‘ اس کے بعد بھی مولانا مرحوم مسلسل ادارے کے لیے کتابیں خریدتے رہے۔ مرحوم حافظ فتحی نے دو ہزار ریال کی کتابیں مزید لے کر دیں، اسی اثنا میں مسند الامام ابی یعلیٰ کی فکر بھی برابر رہی کہ کسی نہ کسی صورت اس کی طباعت کا انتظام ہو جائے۔ چنانچہ حافظ فتحی مرحوم کی وساطت سے ایک ادارے سے بات ہوئی۔ معاملہ آخری مرحلے میں تھا کہ حافظ فتحی کی ایما پر ۳؍ شوال بروز بدھ مولانا مرحوم کتاب کا مسودہ جدہ سے لینے کے لیے تشریف لے گئے، کیوں کہ یہ مسودہ جدہ ہی میں اپنے ایک معتمد کے ہاں انھوں نے رکھا ہوا تھا۔ چار شوال کو مولانا مرحوم نے عمرہ کی نیت سے احرام باندھا، مسودہ سنبھالا، مگر اچانک طبیعت ناساز ہو گئی اور سفر کا ارادہ کل تک کے لیے ملتوی کر دیا۔ رات جدہ ہی میں ٹھہرے، جمعہ کے وقت تک طبیعت میں بے چینی ہی رہی۔ عصر کی نماز کے بعد پیٹ میں تکلیف محسوس کی، حمام میں جانے کے ارادے سے اٹھتے ہی لڑکھڑا کر گر پڑے۔ وہاں موجود دوستوں نے جلدی سے اٹھایا تو آپ کو بے ہوش پایا۔ اسی دوران میں دو تین گہرے سانس لیے اور جان جانِ آفرین کے سپرد کر دی اور یوں یہ آفتابِ علم و عمل ۵ شوال بروز جمعہ بعد نمازِ عصر ہمیشہ کے لیے سرزمینِ حجاز میں غروب ہو گیا۔ إنا للّٰه وإنا إلیہ راجعون۔ آپ کی وفات کی خبر نمازِ مغرب کے بعد مکہ مکرمہ میں احباب کے پاس پہنچی تو سب پر سکتہ طاری ہو گیا، حافظ فتحی مرحوم کی جانب سے اس سلسلے میں جو مکتوب ملا، اس میں لکھا تھا: ’’جب یہ خبر بعد نمازِ مغرب مسجد الحرام بیت اللہ میں بذریعہ فون دی گئی تو
Flag Counter