Maktaba Wahhabi

429 - 462
کھیل تھا۔ بلکہ وہ مشہور ’’مہوسیوں‘‘ میں شمار ہوتے تھے۔ اس سلسلے کے لیے بڑے بڑے کج کلاہوں کو آپ کے درِ دولت پر چکر لگاتے دیکھا گیا، مگر انھیں کچھ ہاتھ نہ آیا۔ یادش بخیر ایک بار مولانا مرحوم ادارۃ العلوم الاثریہ میں عصر کی نماز کے بعد درس سے فارغ ہوئے تو ایک ادھیڑ عمر بزرگ نے مولانا کی خدمت میں ایک خوبصورت مالٹا پیش کیا تو انھوں نے مالٹا دور پھینک دیا۔ چہرے پر خفگی اور ناراضی کے آثار ظاہر ہونے لگے۔ یہ بے رخی بلکہ بدسلوکی دیکھ کر بڑا افسوس ہوا کہ کہاں ان کی حلیمی اور شفیق طبیعت اور کہاں یہ بدسلوکی اور وہ بھی ایک بزرگ کے ساتھ۔ بعد میں یہ دیکھ کر بھی تعجب ہوا کہ کچھ وقت بعد انہی سے بڑے خوشگوار ماحول میں بے تکلفی سے باتیں کر رہے ہیں۔ آئے مہمان چلے گئے، دن بیت گیا، دوسرے روز تشریف لائے تو میں نے ان کی آنے والے مہمان سے بے رخی کا شکوہ کیا کہ یہ آپ کی شان کے منافی تھا تو ہنس کر فرمانے لگے: یہ سب غلط فہمی میں ہوا، میں نے یہ سمجھا تھا کہ یہ صاحب مجھے کیمیا گر سمجھ کر آئے ہیں۔ سونے کی رنگت کی مناسبت سے مالٹا لائے ہیں اور اس بارے میں کچھ پوچھنا چاہتے ہیں۔ مگر اس کے بعد ان سے گفتگو میں میری غلط فہمی دور ہو گئی۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون صاحب تھے؟ تو انھوں نے فرمایا: یہ بہت بڑے صاحبِ علم ہیں، چنیوٹ میں رہایش ہے اور ان کا نام مولانا محمد جعفر قاسمی ہے۔ کچھ اسی قسم کا واقعہ کترووال کے معروف حکیم جناب مستقیم صاحب سے پیش آیا۔ حضرت صوفی محمد عبداللہ صاحب نے ایک مرتبہ اسی ناکارہ کی موجودگی میں مولانا محمد اسحاق چیمہ مرحوم سے فرمایا کہ میرا پیغام ’’مولوی عبداللہ‘‘ کو دینا کہ سونے کی دو تین اینٹیں بنا دے، جامعہ تعلیم الاسلام کے لیے پیسوں کی ضرورت ہے۔ آپ سونا بناتے تھے یا نہیں، اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں۔ میں نے یہ ان کے ہاتھوں سے بنتے
Flag Counter