Maktaba Wahhabi

421 - 462
صاحب نے بڑا ستایا ہے۔‘‘ میں نے اس کا ذکر مولانا چیمہ مرحوم سے کیا تو وہ بھی پریشان ہو گئے۔ اسی دوران میں ادارے کا ایک اجلاس ہونا طے پایا۔ لاہور سے مولانا محمد حنیف ندوی مرحوم اور مولانا محمد اسحاق بھٹی بھی تشریف لائے، ماموں کانجن سے قاضی محمد اسلم سیف صاحب اور مولانا عبدالقادر ندوی بھی پہنچ گئے، مگر نہیں پہنچے تو اجلاس کے میرِ مجلس نہیں پہنچے۔جس کا خلا سبھی حضرات نے بڑی شدت سے محسوس کیا۔ اچانک مولانا چیمہ صاحب اٹھے اور بغیر کچھ کہے اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے۔ دس، پندرہ منٹ ہی بڑی مشکل سے گزرے ہوں گے کہ ہم نے دیکھا کہ مولانا چیمہ صاحب، حضرت مولانا رحمہ اللہ کے ساتھ کمرے میں داخل ہو رہے ہیں۔ سب حضرات میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، اجلاس ختم ہوا۔ مولانا کی کبیدہ خاطری دور ہو چکی تھی۔ ادارے میں آنا جانا شروع کر دیا۔ میں نے ایک روز باتوں باتوں میں پوچھ ہی لیا کہ حضرت آپ تو گویا اجلاس میں آنے کے لیے تیار ہی بیٹھے تھے! فرمایا: میرا آنے کا کوئی پروگرام نہ تھا۔ اپنی مسجد میں بیٹھا مطالعہ کر رہا تھا کہ چیمہ صاحب آگئے اور میرا بازو پکڑ کر کہنے لگے: ’’لڑائی کر لی، اس لڑائی میں میرا اور آپ کا نہیں، ادارے کا نقصان ہے۔ حضرات آئے بیٹھے ہیں وہ کیا کہیں گے۔‘‘ یہ سن کر میرے لیے مجالِ انکار نہ رہی اور اجلاس میں شرکت کے لیے چلا آیا۔ مولانا مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے لحنِ داودی عطا فرمایا تھا۔ آپ بڑی عمدگی سے قرآن مجید پڑھتے۔ بسا اوقات نماز میں قرآن مجید پڑھتے تو دل چاہتا کہ آپ پڑھتے ہی چلے جائیں۔ اسی خوبی نے حضرت مولانا محمد داود غزنوی کو ان کا گرویدہ بنا دیا تھا۔ انھوں نے فرمایا کہ میرا تعلق مولانا غزنوی کے فرزند مولانا ابو بکر غزنوی سے تھا۔ ایک مرتبہ لاہور گیا تو رات مدرسہ غزنویہ میں گزاری۔ صبح ہوئی تو نمازِ فجر کے لیے مولانا
Flag Counter