Maktaba Wahhabi

410 - 462
عبداللہ رحمہ اللہ نے اسے پروان چڑھایا۔ اپنا قیمتی کتب خانہ ادارے کے لیے وقف کر دیا، بلکہ تن من دھن سبھی کچھ ادارے کی بھلائی اور بہبود کے لیے لگا دیا۔ اس کے لیے بلاحجاب آپ اہلِ ثروت کے ہاں تشریف لے جاتے۔ ادارے کی اہمیت بتلاتے اور انھیں ادارے سے تعاون پر آمادہ کرتے، بلکہ ایک مرتبہ میں نے ان سے بطورِ شکوہ عرض کیا کہ آپ ان کے ہاں تشریف کیوں لے جاتے ہیں، ان کے ہاں جانے کے بجائے زیادہ وقت ہمیں دیا کریں تو بطورِ تفنن فرمایا: آواں جاواں تیرے بدلے میرا گلی وچ کم نہ کوئی یعنی اہلِ ثروت کے یہاں جانا محض ادارے کے لیے ہے، ورنہ مجھے تو ان سے کوئی سروکار نہیں۔ ابتدا میں تو علمی طور پر ادارے کو آپ ہی کی سرپرستی رہی اور سب کچھ آپ کی نگرانی میں ہوتا تھا، مگر کچھ عرصے بعد آپ نے لغتِ حدیث کا موضوع لے لیا اور النہایۃ لابن الاثیر کا باقاعدہ درس دیا۔ یہ درس روایتی سبق نہیں ہوتا تھا، بلکہ پہلے حدیث کی مکمل تخریج ہوتی، پھر اس کی صحت و ضعف پر بحث ہوتی، پھر اس کے معانی اور الفاظ کے اشتقاق پر دیگر کتبِ لغت کی روشنی میں بحث ہوتی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک مرتبہ ’’منبر‘‘ پر گفتگو چل نکلی تو اس کے معنی کے ضمن میں ’’منبر‘‘ کی پوری تاریخ بیان کر دی۔ جانور کی عمر کے مطابق علاحدہ علاحدہ جو نام احادیث اور کتبِ لغت میں ہیں، ان کی تحقیق و تفتیش کے لیے تو ہمیں میلہ منڈی مویشیاں میں لے گئے اور عیاں را چہ بیاں کے مصداق فقہ اللغۃ پر اکتفا نہ فرمایا، بلکہ دکھایا کہ یہ حِقہ ہے۔ یہ بنت لبون، یہ بنت مخاض، یہ جذعہ اور یہ مسنّہ وغیرہ ہے۔ واپسی پر مسجد میں پہنچے تو ظہر کی نماز کا وقت قریب تھا۔ نمازی ترچھی نگاہوں سے ہمیں دیکھنے لگے تو انھوں نے فرمایا: ہم سیر اور جانور دیکھنے کے لیے نہیں، بلکہ عملی طور پر کچھ
Flag Counter