Maktaba Wahhabi

407 - 462
کتابیں پڑھیں اور بعض منتہی کتبِ احادیث کا درس حضرت مولانا عبدالوہاب رحمہ اللہ سے لیا۔ اسی نسبت سے جماعت غرباء اہلِ حدیث کے اکابرین کی نگاہ میں وہ بے حد محترم تھے اور وہ فرماتے تھے کہ حضرت مولانا بڑے امام جی کے شاگرد ہیں۔ حضرت مولانا مرحوم کے والد درزی تھے اور بحمداللہ آسودہ حال تھے۔ آٹھ دس روپے ماہانہ خرچہ و اخراجات کے لیے دیتے اور ہونہار فرزند سے ملنے کے لیے جب بھی دہلی جاتے تو گھی کے علاوہ نقدی بھی دے کر آتے اور مولانا اپنی ضرورت اور پیٹ کاٹ کر اس سے اکثر و بیشتر کتابیں خرید لیتے۔ آج بھی ان کی بہت سی کتابوں پر ’’عبدالرحمان نو مسلم تاجرِ کتب صدر بازار دہلی‘‘ کی مہر اس کا زندہ ثبوت ہے۔ خود مولانا مرحوم نے ایک بار فرمایا: ’’جب میں فارغ ہو کر واپس لوٹا تو پیشگی والد صاحب کو آمد کی اطلاع دی اور ساتھ ہی لکھا کہ میرے پاس کتابیں ہیں، اس لیے بیل گاڑی کا انتظام ہو جائے تو آسانی رہے گی۔ چنانچہ جب میں گاؤں پہنچا تو وہاں کے لوگ کتابیں دیکھ کر ششدر رہ گئے اور میرے والد صاحب تھے کہ پھولے نہ سماتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد حضرت مولانا مرحوم کچھ عرصہ عربی ادب سیکھنے کے لیے حضرت مولانا مسعود عالم ندوی کے ہاں گوجرانوالہ تشریف لے گئے۔ مولانا مسعود عالم برصغیر میں عربی ادب کے بہت بڑے ادیب تھے۔ اسی دوران میں وہ استاذ الاساتذہ حضرت مولانا حافظ محمد محدث گوندلوی رحمہ اللہ کے حلقۂ درس میں بھی شریک ہوتے رہے۔ تعلیم و تعلم سے فارغ ہوئے تو اوکاڑہ کے قریب چک نمبر LR-12 میں حضرت میاں محمد باقر رحمہ اللہ کے حکم سے تشریف لے گئے۔ یہ گاؤں بلوچ اور طور برادری پر مشتمل ہے۔ حضرت میاں باقر صاحب رحمہ اللہ کے ان سے دیرینہ تعلقات تھے، ادھر حضرت مولانا مرحوم کے والدِ محترم کا بھی ان سے رشتۂ عقیدت تھا۔ اسی بنا پر
Flag Counter