Maktaba Wahhabi

405 - 462
کر یہ شفقت فرمائی کہ اپنے کتب خانے میں لے جا کر فرمایا: یہ میرا سارا اندوختہ ہے، اسے دیکھ لیجیے۔ اس میں سے جس کتاب کی بھی ضرورت ہو، مطالعہ کے لیے لے جا سکتے ہو۔ ایک اجنبی طالب علم کے ساتھ پہلی مجلس میں ان کی اس کشادہ دلی اور محبت نے مجھے ان کا گرویدہ بنا دیا۔ اسی دوران میں میں نے ’’الکفایۃ في معرفۃ الروایۃ‘‘ خطیب بغدادی کی اور ’’صیانۃ الإنسان عن وسوسۃ الشیخ دحلان‘‘ حضرت مولانا بشیر احمد سہسوانی کی اپنی بے مائیگی کے باوصف پڑھیں۔ ۱۹۶۸ء میں گوجرانوالہ میں جب حضرت الاستاذ محدث گوندلوی رحمہ اللہ سے سندِ فضیلت حاصل کر کے گھر پہنچا تو رمضان المبارک میں ان کی اور حضرت مولانا محمد اسحاق چیمہ صاحب رحمہ اللہ کی جانب سے ’’ادارۃ العلوم الاثریہ‘‘ کے اجرا کا اشتہار لیاقت پور بھی لگا ہوا نظر آیا۔ حضرت والد صاحب سے اجازت لے کر میں نے داخلے کے لیے حضرت مولانا کی خدمت میں عریضہ لکھا تو چند دنوں بعد اس کی منظوری کا خط ان کی جانب سے موصول ہوا۔ چنانچہ پروگرام کے مطابق شوال کے اوائل ہی میں میں کشاں کشاں ’’ادارۃ العلوم الاثریہ‘‘ میں حاضر ہو گیا۔ یہ ادارے کا پہلا سال تھا۔ ادارے کا آغاز بھی حضرت مولانا رحمہ اللہ ہی کی مسجد کریمیہ اہلِ حدیث میں ہوا، نہ کوئی علاحدہ کمرہ، نہ باورچی خانہ، نہ معروف معنوں میں مدرسہ کا ماحول، مسجد اور کتب خانے کا کمرہ، بس یہی سب کچھ تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ نمازِ مغرب کے قریب میں مولانا رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا، انھوں نے کتب خانے کی چابی میرے حوالے کر دی، سردیوں کے ایام تھے، عشاء کی نماز کے بعد میں کتب خانے میں داخل ہوا تو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے طلوعِ فجر تک سب کتابیں دیکھ لیں۔ ایک ایک کو دیکھا اور رکھی ہوئی جگہ پر دوبارہ رکھ دیا، جس کا فائدہ
Flag Counter