Maktaba Wahhabi

190 - 462
ومن لم یعرفہ یکثر خطؤہ‘‘[1] امام ابن المدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ فن علومِ حدیث میں سے اشد ترین ہے، کیوں کہ اس میں قیاس وغیرہ کو بالکل دخل نہیں۔[2] دیگر فنونِ حدیث کی طرح اس فن کو جو اہمیت حاصل ہے وہ بالکل واضح ہے۔ اس موضوع پر سب سے پہلے ابو جعفر محمد بن حبیب البغدادی (المتوفی ۲۴۵ھ) نے ’’المؤتلف والمختلف في أسماء القبائل‘‘ کے نام سے کتاب لکھی، ان کے بعد حافظ عبدالغنی بن سعید نے اس موضوع پر دو کتابیں لکھیں: ایک اسماء کے بارے میں اور دوسری انساب کے بارے میں ہے۔ ان کے بعد امام دارقطنی نے کتاب لکھی۔ امام دارقطنی کے بعد بہت سے اہلِ علم نے اس موضوع پر کتابیں لکھیں۔ علامہ الکتانی امام دارقطنی رحمہ اللہ کی کتاب کے متعلق فرماتے ہیں: ’’کتاب المختلف والمؤتلف للدارقطني وھو کتاب حافل‘‘[3] حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’لہ فیہ تصنیف مفید‘‘[4] امام دارقطنی رحمہ اللہ کو اس فن پر کافی ملکہ حاصل تھا۔ خطیب بغدادی رحمہ اللہ رجاء بن محمد الانصاری سے نقل کرتے ہیں کہ ہم امام دارقطنی رحمہ اللہ کے پاس تھے کہ ایک طالب علمِ حدیث کی قراء ت کر رہا تھا اور امام دارقطنی رحمہ اللہ نماز پڑھ رہے تھے۔ قاری اچانک ایک ایسی حدیث سے گزرا، جس میں ایک راوی نسیر بن ذعلون تھا، لیکن قاری
Flag Counter