Maktaba Wahhabi

108 - 462
آئے ہیں، حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ وغیرہ نے سنن کو حسن حدیث کے مظان میں سے شمار کیا ہے اور سنن دارقطنی میں جس قدر ضعیف یا منکر و معلول روایات ہیں، ان میں سے اکثر و بیشتر کی وجۂ ضعف کو بیان کر دیا ہے، لہٰذا وہ موجبِ طعن قرار نہیں دیے جا سکتے۔ پھر ہم یہ بھی ذکر کر آئے ہیں کہ اس دور کے ائمۂ حدیث نے صحت و سقم کا لحاظ نہیں رکھا، بلکہ ان کا مقصد صرف ذخیرۂ احادیث کو جمع کرنا تھا، لیکن اس کے باوجود اگر امام دارقطنی رحمہ اللہ پھر بھی موجبِ طعن ہیں، جیسا کہ علامہ عینی رحمہ اللہ کے کلام سے معلوم ہوتا ہے تو امام طحاوی رحمہ اللہ کے متعلق ان کے رائے کیا ہے۔ جن کی ’’شرح معانی الآثار‘‘ بھی طبقہ ثالثہ کی کتابوں میں شمار ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ امام طبرانی رحمہ اللہ کی معاجم تو ہیں ہی مجموعہ غرائب و مناکیر تو کیا اس وجہ سے انھیں بھی ضعیف کہا جائے گا۔ رجال و سیر کی کتابیں شاہد ہیں کہ امام دارقطنی رحمہ اللہ پر جو الزام علامہ عینی رحمہ اللہ وغیرہ نے عائد کیا ہے۔ متقدمین سے اس قسم کا اعتراض کہیں منقول نہیں ہے۔ اس کے برعکس امام طبرانی رحمہ اللہ پر ان کی معاجم کی وجہ سے یہ اعتراض کیا گیا، لیکن علما نے اس کی طرف التفات تک نہ کیا۔ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’عاب علیہ إسماعیل بن محمد بن الفضل التمیمي جمعہ الأحادیث بالأفراد مع ما فیہ من النکارۃ الشدیدۃ والموضوعات‘‘ تو کیا امام طبرانی رحمہ اللہ کو بھی اس بنا پر ضعیف کہا جائے گا کہ انھوں نے منکر و موضوع روایات جمع کر دی ہیں؟ ہر گز نہیں۔ انھوں نے صحت کا التزام نہیں کیا۔ ان کا مقصد صرف احادیث کو جمع کر دینا تھا۔ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
Flag Counter