Maktaba Wahhabi

244 - 393
عَنَاقْ کہا جاتا تھا، وہ وہ ان کی دوست تھی، مرثد بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں عناق سے شادی کرلوں؟ آپ نے سکوت اختیار فرمایا(اور کوئی جواب نہ دیا)تو یہ آیت کریمہ نازل ہوگئی:اَلزَّانِیْ لَا یَنْکِحُ إِلاَّ زَانِیَۃً أَوْ مُشْرِکَۃً وَالزَّانِیَۃُ لَا یَنْکِحُھَا اِلاَّ زَانِ أَوْ مُشْرِکٌ(بدکار مرد تو بدکار یا مشرک عورت کے سوا نکاح نہیں کرتا اور بدکار عورت کو بھی بدکار یا مشرک مرد کے سوا اور کوئی نکاح میں نہیں لاتا)آپ نے مجھے بلایا یہ آیت کریمہ پڑھ کر سنائی اور فرمایا:لَا تَنْکِحُھَا [1](تم اس سے نکاح نہ کرو)زانی مردوں کو رشتہ دینے کی حرمت کی دلیل یہ ہے کہ مردوں کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نے نکاح کے سلسلہ میں احصان کی شرط عائد فرمائی ہے جیسا کہ عورتوں کے بارے میں بھی اس شرط کو ضروری قرار دیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:إِذَا اٰتَیْتُمُوْھُنَّ أُجُوْرَھُنَّ مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ وَلَا مُتَّخِذِیْ أَخْدَانٍ [2](جب کہ ان کا مہر دے دو اور ان سے عفت قائم رکھنی مقصود ہو، نہ کھلی بدکاری کرنی اور نہ چھپی دوستی کرنی۔)شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’ مسافح ‘‘ کے معنی زانی کے ہیں، جو کبھی اس عورت کے ساتھ اپنا پانی بہاتا ہے اور کبھی اس عورت کے ساتھ، اسی طرح مسافحہ کے معنی بھی یہی ہیں، جب کہ وَالمتخذ الخدن سے مراد وہ شخص ہے، جس نے داشتہ رکھی ہو اور وہ اسی کے ساتھ زنا کرتا ہو کسی اور کے ساتھ نہیں، نکاح کے حلال ہونے کے لیے یہ شرط قرار دی گئی ہے کہ آدمی نہ تو کھلم کھلا زنا کرنے والا ہو اور نہ خفیہ طور پر دوستی رکھنے والا۔ [3] شیخ الاسلام دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ یہ شرطیں جس طرح یہاں
Flag Counter