مطلب کہ یہ ٹکڑاتوقابل استدلال نہیں ہےرہی بات اصل حدیث حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ والی کی تووہ اگرچہ صحیح ہے لیکن اس سے مزعومہ اورمفروضہ دعوی پر دلیل تب ہی لی جاسکتی ہےجب اس حدیث سے یہ ثبوت ملے کہ واقعی حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے یہ رکعت نہیں دہرائی اوردوسری حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم جن کواس بات کا پتہ بھی چلامگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اعادہ کا حکم نہیں دیا۔جب تک ان دونوں باتوں کو صحیح حدیث یا سند سے ثبوت مہیانہیں کیا جاتا تب تک یہ دلیل ناتمام ہے اورحجت کے قابل ہی نہیں ہےکہ ان کو استدلال کے درمیان میں لایاجائے ۔یہاں مخالفین کے دلائل پر کلام مکمل ہوا۔ و اللّٰہ اعلم !
اس کے بعد ہمارے دلائل پر غورکریں اگرچہ ضمناً اوپر والے کلام میں ہی آپ کو اصل حقیقت کا کما حقہ ادراک ہوچکاہوگا، پھر بھی یہ بات تقویت دینے کے لیے دومزید دلائل پیش کرتے ہیں اورحدیث بھی صحیح ہے۔(بخاری کی روایت ہے )کہ
((اذااتيتم الصلاة فماادركتم فصلواومافاتكم فاتموا))
’’ یعنی جب نماز کی طرف آؤ توجتنی نماز ملے وہ پڑھو(جماعت وامام کے ساتھ)اورجتنی فوت ہوجائے اس کو پوراکرو۔‘‘
اس سے دلیل اس طرح لی جاتی ہے کہ جورکوع میں آکر ملتا ہے اس سے قیام اورسورہ فاتحہ دونوں فوت ہوگئے لہٰذا ان کو امرموجب (اورامروجوب کے لیے ہی ہوتا ہے الامع قرینہ)ان فوت شدہ کا (قیام وفاتحہ)کو پوراکرنا ہے یہ تب ہی ہوسکتا ہے جب رکعت دہرائی جائے یہ حدیث بالکل صحیح ہے اس کے اوپر کوئی بھی غباروکلام نہیں ہے اوراس کے مقابل دوسری کوئی بھی دلیل نہیں ہے جس کے لیے اس سے تحقیق کرکےاسے(رکوع کو)باہر نکالاجائے۔
دوسری دلیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لاصلاةلمن لم يقرءبفاتحة الكتاب)) (بخاري ومسلم)
’’یعنی جس نے الحمد نہ پڑھی ان کی نماز ہی نہ ہوئی۔‘‘
یہ بھی حدیث صحیح ہے صحاح ستہ میں موجودہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جس رکعت میں
|