Maktaba Wahhabi

317 - 660
دعامیں طرزلگانا سوال:اکثرطورپردیکھنے میں آیا ہے کہ نہ صرف عوام بلکہ کچھ علماء دین بھی دعانظم میں مانگتے ہیں اورکچھ ایسی ادعیہ مطبوع بازارمیں بھی ملتی ہیں۔کس حد تک درست ہے۔ میرے خیال میں ایسی دعا مانگنااعتداء فی الدعاہےاوردرست نہیں نیزاحادیث میں دعامیں تک بندی سے منع کیا گیا ہے۔جب محض تک بندی دعامیں اختیارکرنادرست نہیں توپھرپوری دعانظم میں مانگناکہاں تک درست ہوگی ۔کیونکہ نظم میں تک بندی اورقافیہ بندی دونوں سمائی ہوئی ہوتی ہیں کیا سلف صالحین میں سے کسی نے دعابشکل نظم مانگی ہے،اگراس طرح کاثبوت موجود ہے توحوالہ اورصحت سند سے آگاہ فرمائیں اوراگراس طرح نہیں تومتبعین کتاب وسنت کافرض ہے کہ اس کی اصلاح کی پوری پوری کوشش کریں تاکہ’’من رأي منكم منكرا فليغيره بيده......الخ اور’’مامن نبي بعثه في امته قبلي الاكان في امته حواريون واصحاب يأخذون بسنته......فمن جاهدهم بيده......وليس وراءذالك من الايمان حبة خردل‘‘(مسلم)جیسی احادیث پر عمل پیراہوسکیں۔بینواتوجروا! الجواب بعون الوھاب:راقم الحروف اس مسئلہ کے متعلق جوکچھ سائل محترم نے فرمایاہے اس سےمتفق نہیں بشرطیکہ اسے عمومی معمول نہ بنایاجائے اورماثورہ عربی دعاوں کو ترک نہ کیا جائے ۔ہاں اکثر طورپرکسی مرض میں یا کسی مشکل میں انسان کے اندرونی جذبات اوردلی احساسات منظوم صورت میں زبان سےاداہوجاتے ہیں اوریہ اعتداء فی الدعاکے زمرہ میں داخل نہیں ۔تک بندی مطلق یا فی الدعاء ممنوع نہیں۔قرآن کریم میں سیدناموسی علیہ السلام کی دعااس طرح منقول ہے: ﴿قَالَ رَ‌بِّ ٱشْرَ‌حْ لِى صَدْرِ‌ى ﴿٢٥﴾ وَيَسِّرْ‌ لِىٓ أَمْرِ‌ى ﴿٢٦﴾ وَٱحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِى ﴿٢٧﴾ يَفْقَهُوا۟ قَوْلِى ﴿٢٨﴾ وَٱجْعَل لِّى وَزِيرً‌ۭا مِّنْ أَهْلِى ﴿٢٩﴾ هَـٰرُ‌ونَ أَخِى ﴿٣٠﴾
Flag Counter