Maktaba Wahhabi

21 - 660
پیش لفظ فتاوی راشدیہ علمائے اہل حدیث کے فتاوی میں ایک اورگراں قدرعلمی اضافہ اسلام میں فتوی نویسی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہےجتنا کہ بذات خوداسلام۔ انسانی زندگی جو کہ دنیاوی جھمیلوں کا مجموعہ ہے۔اس اعتبارسےانسان کو قدم قدم پررہنمائی کی ضرورت پڑتی ہے۔اللہ تبارک وتعالی نے اسی انسانی ضرورت کو ملحوظ رکھ کرانسان کی رشدووہدایت کے لیے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے رہنمائی کا سامان کیا ہے۔ لغت عرب میں فتوی اورفتیاکا معنی رائے اظہاریامشکل احکام کو واضح کرنا ہے۔ (لسان العرب ١۰/١٤٨-المعجم الوسيط جلد٢-ص٢٧٣) اصطلاح میں فتوی سے مرادپیش آمدہ مسائل اورمشکلات سے متعلق دلائل کی روشنی میں شریعت کا وہ حکم ہے جو کسی سائل کے جواب میں کوئی علم دین اوراحکام شریعت کے اندربصیرت رکھنے والاشخص بیان کرے۔سوال کرنے والے کو مستفتی اورجواب وفتوی دینے والے کومفتی کہا جاتا ہے ۔پس مفتی دین کے حوالے سے لوگوں کو درپیش مسائل اوردیگرسوالات کاکتاب وسنت کے حوالے سے حل بتاتا ہے۔فرمان باری تعالی ہے: ﴿فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ‌ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾ (النحل:٤٣) ’’اگرتم کسی مسئلہ کے بارے میں نہیں جانتے توعلماءسے اس کی بابت پوچھ لیا کرو۔‘‘ فتویٰ پوچھنے اورفتوی دینے کا سلسلہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دورسےچلاآرہاہے۔اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ کے طویل عرصے میں علمائے اسلام اورائمہ عظام نے اس شعبے کی اہمیت کے باوصف ہمیشہ اس کا خاص اہتمام کیا ہے۔مسلمان اپنے دین ودنیوی اموراورپیش آمدہ مشکلات اورمسائل کے حل کے لیے برابران کی طرف رجوع کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ان مسائل کا تعلق خواہ عقائد وعبادت سےہویامعاملات واخلاق سے یا آپسی
Flag Counter