Maktaba Wahhabi

512 - 660
مولاناکااستعمال سوال:ایک مولوی صاحب نے سورۃ بقرۃ کی آخری آیت پڑھی: ﴿أَنتَ مَوْلَىٰنَا فَٱنصُرْ‌نَا عَلَى ٱلْقَوْمِ ٱلْكَـٰفِرِ‌ينَ ﴾ (البقرة:٢٨٦) اوراستدلال کیا کہ مولاناکہلواناجائز نہیں ہےکیایہ صحیح ہے؟ الجواب بعون الوھاب:سورۃ مسئولہ میں مولاناکہلوانا ناجائزنہیں بلکہ جائز ہے۔ باقی آیت کےمذکورہ سےمستعمل کااستدلال لینادرست نہیں کیونکہ مولاناکالفظ مشترکہ لفظ ہے جس کے بہت سےمعنی ہیں لہٰذا یہ لفظ بہت سےمعنی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ((وفي النهاية المولي يقع علي جماعة كثيرة كالرب والمالك، والسيد والمنعم والمعتق والناصر، والمحب والتابع والجار وابن العم والحليف والمقيد والمهر والعبد والمنعم عليه.)) اس کامطلب یہ ہے کہ یہ لفظ ایک ہی ہے جوسیداورعبدپراستعمال کیاجاتا ہے۔ اس لفظ کو غیراللہ کے لیے استعمال کیا گیا ہے: ((عن زيدبن ارقم عن النبي صلي اللّٰہ عليه وسلم قال من كنت مولاه فعلي مولاه.)) [1] دیکھیں ایک ہی لفظ دونوں اشخاص پرایک ہی وقت میں اورایک ہی معنی میں استعمال کیاگیاہےجب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےاس لفظ کواللہ کے علاوہ غیراللہ پراستعمال فرمایاہےاس لیےمعلوم ہواکہ مولاناکالفظ اللہ کے علاوہ کسی اورکے لیے بھی استعمال کرناجائز ہے، اگرناجائزہوتاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے غیراللہ کے لیے استعمال فرماتے، اسی طرح ایک اورحدیث میں بھی جوصحیح بخاری کی حدیث ہے مزیددلیل کےطورپرپیش کی جاتی ہے:
Flag Counter