Maktaba Wahhabi

471 - 660
الجواب بعون الوھاب:معلوم ہونا چاہئے کہ سودکی حرمت قطعی ہے اوراس پراجماع ہے۔ لہٰذا جوشخص سودکوعمداً ہرحالت میں حلال وجائز سمجھے گاوہ بلاشبہ کافرہے، پھرجوشخص کافر(اسلام سے خارج)ہے اس کے پیچھے نماز پڑھنے کا توسوال ہی پیدانہیں ہوتا۔ کمالایخفی باقی مذکورہ صورت میں(یعنی بحالت اضطرارسودکے استعمال کوجائز سمجھنے والے) ایسےشخص کی اقتدامیں نمازجائز ہے کیونکہ مذکورہ شخص سودکوہرصورت میں جائز نہیں سمجھتا بلکہ وہ شخص اضطراری صورت میں جائز سمجھتا ہے۔ چونکہ پہلے سوال کے جواب میں تفصیل کےساتھ عرض کیا گیا کہ سودبحالت اضطرارجائز ہے کیونکہ اضطراری حالت کو عام حکم سے مستثنیٰ قراردیاگیا ہے۔ لہٰذا ایسے شخص کوکافرنہیں کہاجائے گااوراس کے پیچھے بشرطیکہ صحیح العقیدہ ہونمازجائز ہے وہ شخص اس مسئلہ کی وجہ سے امامت سے خارج نہیں ہوسکتا۔ مجبوری میں سودکاحکم سوال:ایک مولوی صاحب جواپنے آپ کو عقیدتاً وعملاًاہلحدیث کہتا ہے اس کاخیال ہے کہ اگرکہیں قحط سالی واقع ہوجائے اورکسی شخص کے بچے واہل خانہ فاقہ کشی کی زندگی بسرکررہے ہوں یا کچھ دنیاوی معاملات کی وجہ سے مجبورہواوراسےکچھ پیسوں کی ضرورت ہواورکسی دوسرے ذریعہ سےاسےرقم نہ مل رہی ہوتواس کے لیے جائز ہے کہ وہ سودپررقم حاصل کرکے اپنی ضروریات کو پوراکرلے اوربطوردلیل قرآن کریم کی یہ آیت پیش کرتا ہے: ﴿فَمَنِ ٱضْطُرَّ‌ غَيْرَ‌ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَآ إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ‌ۭ رَّ‌حِيمٌ﴾ (البقرۃ۲/۱۷۳) ’’جوشخص مجبوری میں ڈال دیا جائے اس حال میں کہ نہ باغی ہواورنہ ہی حدسےبڑھنے والاتواس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ غفورورحیم ہے۔ ‘‘ اس آیت کے لحاظ سے بحالت مجبوری حرام کھانا جائز ہے لہٰذا اس شخص کو بھی سخت مجبوری درپیش ہے لہٰذا اس کے لیے سود کی رقم لیناجائز ہے اس مولوی صاحب کو اس کے متعلق
Flag Counter