Maktaba Wahhabi

65 - 660
کےساتھ پھیلاتھا،کسی نے بھی زبردستی نہیں کی تھی قرآن کریم نے جن بھی انبیاء کرام کے احوال بیان کئے ہیں ان میں غورکرنے کے بعد یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ ان بزرگ ہستیوں نے تو خود دین کی تبلیغ کی خاطر دشمنوں کی تکالیف برداشت کیں مگر ان پر زبردستی نہیں کی اورپوری کوشش کے باوجودجب وہ کفر پر ڈٹے رہے تو یہ بزرگ ہستیاں صرف یہ کہہ کران سے الگ ہوگئیں کہ: ﴿وَمَا عَلَيْنَآ إِلَّا ٱلْبَلَـٰغُ ٱلْمُبِينُ اس طرح قرآن كريم میں اصولی طورپرفرمایاگیا ہے کہ : ﴿لَآ إِكْرَ‌اهَ فِى ٱلدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ ٱلرُّ‌شْدُ مِنَ ٱلْغَىِّ ۚ فَمَن يَكْفُرْ‌ بِٱلطَّـٰغُوتِ وَيُؤْمِنۢ بِٱللَّهِ فَقَدِ ٱسْتَمْسَكَ بِٱلْعُرْ‌وَةِ ٱلْوُثْقَىٰ لَا ٱنفِصَامَ لَهَا ۗ وَٱللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ﴾(البقرۃ:۲۰٦) ’’ دین میں زبردستی نہیں ہے ہدایت گمراہی سے الگ کی گئی ہے،پھر جو کوئی طاغوت کا انکارکرے اوراللہ پر ایمان لائے تواس نے ایک مضبوط سہاراتھام لیا جوکبھی ٹوٹنے والا نہیں ہے اوراللہ سننے والااورجاننے والا ہے۔‘‘ بہر حال اصل دین اسلام میں نہ زبرستی جائز ہے اورنہ ہی کرنی چاہئے ۔ و اللّٰہ اعلم بالصواب اولی الامرکا مطلب سوال:قرآن کریم میں سورۃ النساء میں آیت کریمہ ہے ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللّٰهَ وَأَطِيعُوا الرَّ‌سُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ‌ مِنكُمْ﴾ (النساء:۵۹)اس آیت کریمہ میں"أُولِي الْأَمْرِ‌ مِنكُمْ"سے کیا مراد ہے کیا اس آیت سے تقلید شخصی کے لیےاستدلال کیا جاسکتا ہے۔؟ الجواب بعون الوھاب: اس آیت کریمہ میں "أُولِي الْأَمْرِ‌ مِنكُمْ"سے مسلمانوں کے حکام مرادہیں کیونکہ وہی صاحب امر"أُولِي الْأَمْرِ‌ مِنكُمْ"ہیں پھر چاہے وہ
Flag Counter