Maktaba Wahhabi

392 - 660
اسی طرح دوسری حدیث ہے جس کو سیدنا ابن عمررضی اللہ عنہما سےخطیب بغدادی نے تاریخ بغدادمیں نقل کی ہے اورحافظ ابن حجررحمہ اللہ نے تلخیص الحبیرمیں کہا ہے۔ اسنادہ صحیح۔ ((کنانغسل الميت فمنايغتسل ومنامن لايغتسل.)) ’’یعنی ہم میت کوغسل دیتے تھےتوہم میں سے کوئی غسل کرتااورکوئی نہیں کرتا تھا۔ ‘‘ اسی طرح ایک تیسری روایت سے اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہ سےمروی ہے: ((منهاحديث اسماءبنت عميس امرة ابي بكرالصديق رضي اللّٰہ عنه انهاغسلت أبابكرالصديق حين توفي ثم خرجت فسالت: من حضرها من المهاجرين فقلت اني صائمة وان هذايوم شديد البرد فهل عليّ من غسل قالوالا.)) (رواه مالك في المئوطا،ص١٣٣) ’’یعنی اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سیدناابوبکررضی اللہ عنہ کی زوجہ انھوں نے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کوغسل دیاجب ان کا انتقال ہواپھرباہرآئیں اورمہاجرین موجودتھےان سے استفسارکیا کہ آج شدیدسردی ہے اورمیں روزے سے بھی ہوں کیامیرے اوپر غسل واجب ہے توانھوں نے کہا نہیں۔ ‘‘ جملہ دلائل کاخلاصہ یہ ہے کہ غسل کرنامستحب ہے واجب نہیں ہے۔ قرآن خوانی کا حکم سوال:میت کوثواب پہنچانے کے لیے قرآن مجیدکی تلاوت کرواناکیساہے؟ الجواب بعون الوھاب: میت کوثواب پہنچانے کےبارے میں(ہرمیت کے بارے میں خواہ وہ میت باپ ہوماں ہویا کوئی اجنبی)علماء حق کا اختلاف ہے ۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ علیہ وغیرہ اس طرف گئے ہیں کہ ہرمیت کو ثواب پہنچایاجاسکتا ہے اورہرکوئی پہنچاسکتا ہے یعنی وہ میت کا کائی عزیز ہویااجنبی جیساکہ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ علیہ کی کتاب’’کتاب الروح‘‘میں واضح
Flag Counter