Maktaba Wahhabi

169 - 660
اگر سورج طلوع نہ ہویا لمباعرصہ غائب رہے یا دریا بہنا بند یا کم پانی آئے توخود سوچوکہ حضرت انسان کا کیا حال ہوتا۔ خلاصہ کلام کہ پوری کائنات انسان کے لیے ہے اوراس کی ضرورت کو پوراکررہی ہے،مگرخودحضرت انسان ان میں سے کسی کے بھی خاص کا م کے لیے نہیں ہےاگروہ انسان چلا جائے توان پر کوئی نقصان یا اثر نہیں ہوتا وہ اپنا دائمی فرض بجالاتے رہتے ہیں۔ ب:۔۔۔۔۔۔جب اتنی بڑی وسیع کائنات انسان کے لیے ہے اورانسان ان کے کسی کام کانہیں ہے توپھر خود انسان کس کام کا ہے ،جب انسان اس کائنات پر حکمرانی کررہاہےتوظاہرہے کہ پوری کائنات سےاشرف ہے،کیونکہ حاکم جن پر حکمرانی کرتا ہے وہ ان سے اعلیٰ ہوتاہے توپھر کیا عقل اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ کارآمد ہےاوروہ ہمارے لیے مفید خدمت سرانجام دے رہا ہےاوراس کا حکمران نکمااوربالکل بے مقصد وبے غرض وغایت نفع اورفائدہ سےیکسر خالی اورمحروم ہے؟عقل ہرگزاس بات کو تسلیم نہیں کرے گی،پھر سوچنا ہے کہ اس حکمران انسان کی تخلیق وپیدائش کی غرض وغایت کیا ہے، اس کو کیا فرائض انجام دینے ہیں ؟اس کا جواب بھی قرآن میں موجود ہے ۔ ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴾ (الذاریات:۵۶) ’’میں نے جنوں اورانسانوں کو محض اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔‘‘ یعنی جس طرح یہ پوری کائنات انسان کی خدمت کررہی ہے اوراس کے فائدے کےلیے ہے،انسان جو بھی کام اس سے لینا چاہتا ہے وہ اس کے اس اردے کی تکمیل سے انکارنہیں کرتے بلکہ وہ جوکام بھی چاہے جائز ہو یا ناجائز لینا چاہے گاوہ ان کے حکم کی بجاآوری سےسرتابی نہیں کرتے۔ اسی طرح انسان اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بندگی بجالانے کے لیے اس خطہ ارضی پر آیا ہے تاکہ وہ اپنے حقیقی خالق بےحد رحم وحلم والے رب کے ہر معاملے پر کام کےلیے زندگی کے ہرشعبے میں مرضی رکھے اوراس کے حکم ارشادرہنمائی اورمرضی کے مطابق چلے،انہی نکتوں کا نتیجہ اللہ کی کتاب ورسل علیہم السلام اوراس کے اوامرونواہی زندگی کی طرز بودوباش
Flag Counter