Maktaba Wahhabi

360 - 380
۱۰/ ذوالحج (یومِ نحر) کو جمرئہ عقبہ کی رمی کرنا ہوتی ہے۔ لہٰذا یہاں ان کے وکیل یا نائب کی حیثیت سے آپ خود رمی کر آئیں کیونکہ وہاں اس قدر بِھیڑ ہوتی ہے کہ اچھے بھلے بھی ہمت ہار جاتے ہیں چہ جائیکہ بچے وہاں خود جاکر کنکریاں ماریں۔ اور جو بچے بہت چھوٹے یا شیر خوار ہیں؛ ان کی نسبت تو وکیل بننے کے سواکوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ ویسے بھی جب شرعاً وکیل یا نائب یہ ذمہ داری پوری کرسکتاہے تو پھر عذر کی شکل میں اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ بعض خواتین اپنے ہاتھ سے کنکریاں مارنے کے شوق بلکہ ضد کی بنا پر اصرار کرکے جمرات پر جا نکلتی ہیں مگر کئی مرتبہ ایسے بھی ہوا کہ جمرات کے قریب نسوانی آواز میں چیخ و پکار سنی گئی جو یقینا شرعی رخصتوں سے فائدہ نہ اٹھانے کا خمیازہ بھگتنے والی بات ہے۔ ہاں! اگر جمرات کو دیکھنے کا شوق پورا کرنا ہو تو چودہ یا پندرہ ذوالحج کو وہاں چلے جائیں۔ وہ مقامات آپ کو خالی ملیں گے۔ زیادہ سے زیادہ چند لوگ وہاں ہوں گے جو رمی سے رونما ہونے والی توڑ پھوڑ کی اصلاح کررہے ہوں گے۔ رمی کے بعد اپنی اور بیوی بچوں کی طرف سے فی کس ایک ایک جانور کی قربانی دیں اور اگر ایک اونٹ یاگائے لے کر قربانی دیں تو یہ سات افراد کی طرف سے کفایت کرجاتے ہیں۔ حجِ تمتُّع یا قِران کرنے والے تمام حجاج پر قربانی واجب ہے اور اس عام حکم میں بچے بھی شامل ہیں۔ (الشرح الصغیر للدردیر: ۲/ ۸۔ حاشیہ) امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے سوا باقی تینوں ائمہ اور جمہور اہلِ علم کا بھی یہی مسلک ہے کہ بچے کی طرف سے بھی ہدی (قربانی) لازم ہے۔ (المرعاۃ: ۶/ ۲۰۲) منحر (قربان گاہ) یا جس جگہ بھی قربانی کرنا ہو؛ وہاں بھی بچوں کو ساتھ نہ لے جائیں بلکہ والد یا سرپرست ہی بچوں کی طرف سے بھی قربانی کر آئے اور یہی طریقہ خواتین اور دیگر ضعیف لوگوں کے لیے بھی ہے۔ قربانی سے فارغ ہونے کے بعد سر کے بال کٹوانے یا منڈوانے کا موقع
Flag Counter