Maktaba Wahhabi

166 - 380
’’میں ان دونوں کی طرف لوٹ کر گیا اورانہیں یہ جواب بتایا تو حضرت مسور رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہا کہ آج کے بعد میں کبھی بھی آپ سے بحث نہیں کروں گا۔ (یعنی ان کے علم وفضل کااعتراف کرلیا)۔‘‘ اس سے آگے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں : ’’اس حدیث سے معلوم ہوا کہ احرام کی حالت میں غسل کرنا اور مُحرم کا اپنے سر کو خوب مَل کر دھونا جائز ہے جبکہ بالوںکے گرنے کا خدشہ نہ ہو ۔ ایسے ہی وضو کے وقت احرام کی حالت میں بھی داڑھی کے بالوں کا خلال کرنا مستحب ہے۔‘‘ (فتح الباري ۴/ ۵۷) سر کو مَل کر دھونا: ا س حدیث سے جوازِ غسل کے علاوہ سر کو دونوں ہاتھوں سے خوب مل کر دھونے کے جواز کا بھی پتہ چلتا ہے اور ظاہر ہے کہ سر کو مل کر دھونے میں کسی بال کے ٹوٹنے اورگرنے کاگمان غالب ہوتا ہے، اس کے باوجود جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سر کو مَل کر دھونے کاثبوت ملتا ہے تو اس سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ دورانِ غسل اگر سر یا بدن کے کسی حصہ سے کوئی بال ٹوٹ کر گر گیا تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ سر کو دھونے کے جواز پر جمہور اہلِ علم اوراکثر ائمہ مثلا ًامام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام اوزاعی، امام اسحاق بن راہویہ اور امام سفیان ثوری وغیرہ رحمہ اللہ کااتفاق ہے۔ (الفتح الرباني: ۱۱/ ۲۱۳، فتاوی ابن تیمیۃ: ۲۶/ ۱۱۶)
Flag Counter