Maktaba Wahhabi

266 - 380
وادیٔ عُرنہ میں: زوالِ آفتاب کے بعد وادیٔ نمرہ کے ساتھ ہی آگے وادی ٔ عُرنہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے (جہاں آج کل مسجدِ نمرہ بنائی گئی ہے) وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا۔ پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے اذان کہلواکر ایک اقامت سے ظہر اور پھر دوسری اقامت سے عصر کی نمازیں قصر وجمع کر کے پڑھیں، جیساکہ معروف حدیثِ جابر رضی اللہ عنہ میں ہے: (( اِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ أَمَرَ بِالْقَصْوَآئِ فَرُحِّلَتْ لَہٗ، فَأتَیٰ بَطْنَ الْوَادِيْ فَخَطَبَ النَّاسَ۔۔۔ ثُمَّ أَذَّنَ بِلَالٌ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّـٰی الظُّھْرَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّـٰی الْعَصْرَ وَلَمْ یُصَلِّ بَیْنَھُمَا شَیْئاً )) [1] ’’جب سورج سر سے ڈھل گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی قصواء پر کاٹھی ڈالنے کاحکم فرمایا اور اس پر( سوار ہوکر) وادیٔ (عُرنہ) میں تشریف لائے اورلوگوں کو خطبہ دیا …پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان کہی اور پھر ایک اقامت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ ظہر اور دوسری اقامت سے نماز عصر پڑھائی اور ان کے مابین کچھ (نفل وسنت) نہ پڑھا۔‘‘ یہاں ایک اذان اور دو اقامتوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر و عصر اداکیں۔ ان نمازوں میں اہلِ مکہ بھی شامل تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کونماز مکمل کرنے کا حکم نہیں فرمایا بلکہ سبھی نے قصر نمازیں اداکیں۔ (زاد المعاد: ۱/ ۴۶۱، ۴۶۲) آج کل حُجاج کی کثرت کی وجہ سے ان وادیوں (نَمرہ اور عُرنہ) میں رکنا مشکل ہوچکا ہے لہٰذا اگر منیٰ سے سیدھے عرفات ہی چلے جائیں تو بھی کوئی حرج نہیں۔ (مناسک الحج والعمرۃ، ص: ۲۹) شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ یوم ترویہ کو منیٰ ٹھہرنا، وہیں پر
Flag Counter