Maktaba Wahhabi

267 - 380
رات گزارنا، پھر وادیٔ عُرنہ (ونَمرہ) میں زوالِ آفتاب تک رکنا، جو کہ مشعرِ حرام اور عرفات کے مابین ہیں، وہاں خطبہ دینا اور دو نمازیں پڑھنا اورپھر عرفات جانا فقہاء کے ہاں متفق علیہ امورِ سنن میں سے ہیں لیکن آج کل مُحْدثات وبدعات کے دور دورے کی وجہ سے انھیں کثیر لوگ نہیں جانتے اور حد تو یہ ہے کہ بکثرت مصنفین بھی اس کی تمیز نہیں کرتے۔ (مجموع الفتاویٰ: ۲۶/ ۱۶۸) وقوفِ عرفات: وقوفِ عرفات حج کا ’’رکنِ اعظم‘‘ ہے۔ سنن ابو داود، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور مسند احمد میں حضرت عبدالرحمن بن معمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( اَلْحَجُّ عَرَفَۃٌ )) [1] ’’میدانِ عرفات میں وقوف کرنے کا نام ہی حج ہے۔‘‘ گویا اگر کسی سے یہ رہ گیا تو اس کا حج ہی نہیں ہے۔ صحیح مسلم والی حدیثِ جابر رضی اللہ عنہ کی رو سے غروب ِ آفتاب کے بعد تک میدانِ عرفات میں وقوف کرنا سنت ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غروبِ آفتاب کے بعد عرفات سے مزدلفہ کی طرف روانہ ہوئے تھے۔ چنانچہ اس حدیث میں ہے: (( فَلَمْ یَزَلْ وَاقِفاً حَتَّـٰی غَرَبَتِ الشَّمْسُ وَذَھَبَتِ الصُّفْرَۃُ قَلِیْلاً حَتّٰی غَابَ الْقُرْصُ )) [2] ’’آپ مسلسل میدانِ عرفات میں رہے حتیٰ کہ آفتاب غروب ہوگیا اور
Flag Counter