Maktaba Wahhabi

178 - 380
ہے کہ چہرہ ڈھانپنے سے کہیں سر (کا کچھ حصہ) نہ ڈھک جائے کیونکہ اس کا امکان رہتا ہے۔ (شرح صحیح مسلم للنووي: ۸/ ۱۲۶، ۱۲۹) سنن سعید بن منصور کے حوالے سے حافظ ابن حجر نے امام عطاء کا قول نقل کیا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ مُحرم اپنے چہرے کو اپنی ابرؤوں کے نیچے تک اورایک روایت کے مطابق اپنی آنکھوں کے نیچے تک ڈھانپ سکتا ہے اور اس میں یہ احتیاط پیش نظر رکھی گئی ہے کہ کہیں سر نہ ڈھک جائے۔ (فتح الباري: ۴/ ۵۵) بعض آثارِ صحابہ وتابعین سے منہ کو ڈھانپ لینے کا جواز معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ مسند امام شافعی اورسنن سعید بن منصور میں حضرت قاسم رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان ذوالنورین، زید بن ثابت اورمروان بن حکم احرام کی حالت میں منہ کو ڈھانپا کرتے تھے۔[1] امام مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب آندھی چلتی تو لوگ (صحابہ رضی اللہ عنہم ) احرام کی حالت میں بھی منہ ڈھانپ لیتے تھے۔ امام طاؤس کاقول ہے کہ محرم گردوغبار یا راکھ سے بچاؤ کے لیے منہ ڈھانپ سکتا ہے۔ (فقہ السنۃ: ۱/ ۶۶۶) ان آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ بوقتِ ضرورت منہ ڈھانپ لینے سے کوئی فدیہ لازم نہیں آتا۔ پچھنے لگوانا یا فصد کروانا: احرام کی حالت میں سر یا جسم کے دوسرے کسی بھی حصے پر پچھنے لگوانا ، فصد کروانا یا سینگی کھنچوانا بھی جائز ہے کیونکہ صحیح بخاری ومسلم، سنن ابو داود و ترمذی و نسائی اور مسند احمد میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے :
Flag Counter