Maktaba Wahhabi

199 - 380
یاد رہے کہ اس بوسہ دینے اور کسی چیز کے ساتھ استلام کرنے، دونوں طریقوں کا ثبوت صحیح بخاری شریف میں مذکور ایک اور حدیث سے بھی ملتا ہے؛ جس کے راوی حضرت زبیر بن عربی ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں: (( سَأَلَ رَجُلٌ ابْنَ عُمَرَ ۔ رضي اللّٰه عنهما ۔ عَنْ اِسْتِلَامِ الْحَجَرِ فَقَالَ: رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم یَسْتَلِمُہٗ وَیُقَبِّلُہٗ )) [1] ’’ایک آدمی نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے استلام (چُھونے )کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجر اسود کو چُھوتے اور چومتے تھے۔‘‘ بِھیڑ کی شکل میں: اگر بِھیڑ اس قدر عام ہو کہ حجرِ اسود کو کسی چیز یاہاتھ سے چُھونا بھی ممکن نہ ہو تو پھر دور ہی سے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے (( بِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ )) کہیں اور طواف شروع کردیں ۔ کیونکہ صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: (( أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم طَافَ بِالْبَیْتِ عَلَیٰ بَعِیْرٍ، کُلَّمَا أَتَـٰی عَلَی الرُّکْنِ أَشَارَ إِلَیْہِ بِشَيْئٍ فِيْ یَدِہٖ وَکَبَّرَ )) [2] ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ شریف کا طواف اونٹ پر بیٹھ کر کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب حجرِ اسود کے سامنے آتے تو اپنے ہاتھ میں موجود کسی چیز (چھڑی) سے اس کی طرف اشارہ فرماتے اورتکبیر کہتے۔‘‘ اس حدیث سے جہاں اشارہ کرنے کے جواز کا پتہ چلتاہے وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف اللہ اکبر کہنا ہی ثابت ہے، البتہ حضر ت عبداللہ بن
Flag Counter