ایسے ہی حنابلہ اورشوافع کے نزدیک غسل کے لیے خوشبودار صابن بھی استعمال کیا جاسکتا ہے اور احناف کے نزدیک صرف وہ صابن جائز ہے جس میں خوشبو نہ ہو۔
(الفقہ علیٰ المذاھب الأربعۃ: ۱/ ۶۵۰۔ ۶۵۱، فقہ السنۃ: ۱/ ۶۶۶)
سر دھوتے وقت اس کا ڈھک جانا:
غسل کے جواز اورسر کو مل کر دھونے کا ثبوت توخود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مل گیا جبکہ خلفاء راشدین میں سے امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا اثر بھی موطا امام مالک اورمسند امام شافعی میں مروی ہے جس سے احرام کی حالت میں ان کے سر کو دھونے کا پتہ چلتا ہے۔ ان کے الفاظ ہیں:
(( مَا یَزِیْدُ الْمَائُ الشَّعْرَإلَّا شَعْثاً )) [1]
’’پانی سر کے بالوں کی پراگندگی میں اضافہ ہی کرتا ہے۔‘‘
امام شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الاوطا ر میں لکھا ہے کہ سر کو دھوتے وقت ہاتھوں سے جو سرڈھک جاتا ہے وہ بھی جائز ہے اوران کا استدلال سابق الذکر حدیثِ ابی ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے ہے۔ (نیل الأوطار: ۳/ ۶/ ۱۳، طبع بیرو ت)
اگر پانی میں غوطہ لگایا جائے توظاہر ہے کہ اس سے بھی سرپانی کے نیچے آجاتا اورڈھک جاتا ہے۔ اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ مسند شافعی اور سنن بیہقی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے :
(( قَالَ لِیْ عُمَرُ، وَ نَحْنُ مُحْرِمُوْنَ بِالْجُحْفَۃِ: تَعَالَ اُبَاقِیْکَ، اَیُّنَا اَطْوَلُ نَفَساً فِي الْمَائِ؟ )) [2]
|