Maktaba Wahhabi

342 - 380
اور بچوں کی طرف سے رمی کرنے کا ذکر ہے۔اس کی سند کے علاوہ متن بھی متکلّم فیہ ہے اور ابن القطان نے کہاہے کہ اس سے ابن ابی شیبہ والی (مذکورۂ) روایت کا متن صحیح ہونے کے زیادہ مشابہ ہے کیونکہ عورت کی طرف سے تلبیہ نہیں کہا جاسکتا، اس پر علماء کا اجماع ہے۔ (نیل الاوطار ایضاً) غرض یہ حدیث تو ضعیف السند ہے لیکن صحابہ رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین سے دوسروں کی طرف سے رمی کرنے کا ثبوت ملتاہے۔ اور ارشادِ الٰہی ہے : {فَاتَّقُوْا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ} [التغابن: ۱۶] ’’اللہ سے ڈرتے رہو جس قدر کہ تم میں اس کی استطاعت ہے۔‘‘ یہ بھی جوازِ وکالت کی دلیل ہے کہ بچے، بیمار اور کمزور وحاملہ عورتیں رمی جمرات کی استطاعت نہیں رکھتیں اور رمی کے وقت کے فوت ہوجانے کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔ لہٰذا بِھیڑ کم ہونے کا انتظار بھی ممکن نہیں ہوتا اور اس کی قضا بھی نہیں جبکہ اس کے برعکس طواف وسعی کا وقت فوت نہیں ہوتا اور وہاں بِھیڑ کم ہونے کے انتظار کی گنجائش ہوتی ہے اور وقوفِ عرفات ومزدلفہ ومنیٰ کا وقت فوت ہوسکتاہے مگر وہاں بہرحال سب پہنچ سکتے ہیں، اگرچہ معمولی مشقّت ہی اُٹھانی پڑے بخلاف اس رمی کے۔ اور ویسے بھی رمی میں وکیل بنانا سلف صالحین سے ثابت ہے۔ (التحقیق لابن باز، ص:۵۰) عذر کی وجہ سے: عذر و ضرورت اور مجبوری کی بنا پر منیٰ کا قیامِ شب معاف ہے جیسا کہ قریب ہی صحیح بخاری ومسلم کے حوالے سے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رخصت دینے کا ذکر گزرا ہے کہ سقایۃ الحجاج کی ذمہ داری کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں رخصت دے دی تھی۔[1]
Flag Counter