Maktaba Wahhabi

346 - 380
(( فَقَدِمَ الْمَدِیْنَۃَ بَشَرٌکَثِیْرٌ )) [1] ’’ ایک خلقِ کثیر مدینہ منورہ پہنچ گئی تھی۔‘‘ لہٰذا ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی بالمشافہ گفتگو اور ملاقات پہلی مرتبہ اسی مقامِ روحاء پر ہوئی ہو۔ (بحوالہ المرعاۃ شرح المشکوۃ علامہ عبید اللہ رحمانی مبارک پوری: ۶/ ۱۹۹) امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہ ثواب بچے کو اٹھانے، محرّماتِ احرام کی پابندی کروانے اورمناسکِ حج وعمرہ کی ادائیگی کروانے پر ہوگا۔ اسی سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار قاضی عیاض اور علّامۂ یمانی امیر صنعانی رحمہ اللہ نے بھی کیا ہے۔ جبکہ ملا علی قاری رحمہ اللہ نے کہا کہ اگر وہ بچہ سمجھدار ہوتو اسے حج کی تعلیم دینے کاثواب والدین کو ہوگا اوراگر کم سن ہے تواحرام، رمی، وقوفِ عرفات ومزدلفہ میں نیابت اور طوافِ بیت اللہ اور سعیٔ صفا ومروہ کے دوران اسے اٹھانے کا ثواب ماں باپ کو ہوگا۔ (بحوالہ سابقہ) سبل السلام شرح بلوغ المرام میں لکھا ہے کہ یہ حدیث (جس میں بچے کا ذکر ہے) اس بات کی دلیل ہے کہ بچے کا حج بھی صحیح ہے ، وہ چاہے سمجھدار ہو یا کم سن جبکہ اس کمسن کی طرف سے اس کے سرپرست تمام اعمال و مناسکِ حج خود ادا کرتے جائیں اور جمہور اہلِ علم کا یہی مسلک ہے کہ بچے کا حج صحیح ہے۔ (سبل السلام: ۱/۲/۱۸۰) صحیح مسلم شریف کی حدیث اور اہلِ علم ومعرفت کی تشریحات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ بچے پر اگرچہ حج فرض نہیں لیکن اس کا حج صحیح ہے اور اسے اس کا ثواب بھی ہوگا۔ صرف اسی پر بس نہیں کہ اسے ثواب ہوگا بلکہ اسے حج کرانے والے والدین یا سرپرستوں کو بھی اس کے حج کا ثواب ملے گا۔ اندازہ فرمائیں کہ اگر تھوڑی سی اور چند روزہ مشقت برداشت کرنے پر اتنا اجروثواب مل رہا ہو توپھر اور کیا چاہیے؟ بچہ اگر ناسمجھ وشیر خوار ہو تو مناسکِ حج وعمرہ
Flag Counter