Maktaba Wahhabi

341 - 380
اس صورتِ حال سے بچنے کے لیے کمزوروں، بوڑھوں، ضعیف عورتوں اور بچوں کی اپنی طرف سے رمی کرنے کے لیے انھیں کسی کو اپنا وکیل مقرر کردینا چاہیے اور خود اپنے خیموں ہی میں رہنا چاہیے۔ (فقہ السنۃ: ۱/ ۷۳۵) وکیل کو چاہیے کہ وہ جس جمرے پر جائے؛ وہاں پہلے ایک ایک کرکے اپنی کنکریاں مارے اور پھر اُسی طرح ہی اپنے موکل کی کنکریاں بھی مارے۔ یہاںیہ بات پیشِ نظر رہے کہ تمام کنکریاں ایک ایک کرکے مارنا ضروری ہے اور اگر کسی نے مٹھی بھر کر اکٹھی ہی کنکریاں مار دیں تو یہ رمی شمار نہیں ہوگی جیسا کہ یومِ نحر کی ’’رمی جمرۂ عقبہ‘‘ کے ضمن میں بھی گزر چکا ہے۔ (نیز دیکھیے: المغنی: ۳/ ۲۸۶) رمی میں وکیل مقرر کرنے کے سلسلے میں بعض روایات بھی مروی ہیں مگر ان کی اسناد متکلّم فیہ ہیں، مثلاً سنن ابن ماجہ، مسند احمد اور مصنف ابن ابی شیبہ میں ایک روایت ہے جس کی سند کے ایک راوی اشعث بن سوار کو محدّثین نے ضعیف کہاہے۔ (کما في نیل الأوطار: ۲/ ۴/ ۲۹۴) اس روایت میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: (( حَجَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم ومَعَنَا النِّسَآئُ وَالصِّبْیَانُ، فَلَبَّیْنَا عَنِ الصِّبْیَانِ، وَرَمَیْنَا عَنْھُمْ )) [1] ’’ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کیا اور ہمارے ساتھ عورتیں اور بچے بھی تھے۔ ہم نے بچوں کی طرف سے تلبیہ بھی کہا اور ان کی طرف سے رمی بھی کی۔‘‘ ایسے ہی ترمذی میں ایک روایت ہے جس میں عورتوں کی طرف سے تلبیہ کہنے
Flag Counter