|
’’جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں وہ مردود ہے۔‘‘
۲: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،آپ کے خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم پیدائش کا جشن منایا،نہ ہی اس کی دعوت دی،جب کہ وہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت کے سب سے افضل لوگ تھے،خلفائے راشدین کی بابت رسول گرامی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
((عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِيْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّیْنَ مِنْ بَعْدِيْ،عَضُّوْا عَلَیْھَا بِالنَّوَاجِذِ،وَإِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُوْرِ،فَإِنَّ کُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ۔))[1]
’’میری سنت کو لازم پکڑو اور میرے بعد میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو،اسے دانتوں سے مضبوطی کے ساتھ جکڑلو،اور دین میں نئی نئی باتوں سے بچو،کیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
۳: یومِ پیدائش کا جشن منانا جادۂ حق سے منحرف گمراہوں کا طور طریقہ ہے،کیونکہ سب سے پہلے عبیدیوں فاطمیوں (شیعوں کا ایک فرقہ) نے چوتھی صدی ہجری میں اس بدعت کو ایجاد کیا،یہ لوگ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طرف سراسر جھوٹ کے سہارے منسوب ہیں،حقیقت میں یہ لوگ باختلاف اقوال یہودی یا مجوسی (آتش پرست) یا دہریہ بددین لوگ تھے۔[2]
ان کا سب سے پہلا بادشاہ المعز لدین اللہ عبیدی مغربی تھا،جو شوال ۳۶۱ھ میں مغرب سے مصر کی طرف نکلا اور رمضان ۳۶۲ میں مصر پہنچا۔[3] تو کیا کسی صاحب فہم کے لیے جائز
|