’’میں تمہیں اللہ کے تقویٰ اور سمع و طاعت کی وصیت کرتا ہوں اگرچہ غلام ہی تمہارا امیر کیوں نہ ہو،کیونکہ تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا،لہٰذا تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو،اسے مضبوطی سے تھام لو اور اسے دانتوں سے خوب اچھی طرح جکڑلو،اور اپنے آپ کو نئی ایجاد شدہ باتوں (بدعات) سے بچاؤ،اس لیے کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
۷: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں : لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر (بھلائی و نیکی) کے متعلق پوچھا کرتے تھے اور میں آپ سے شر (برائی و گناہ کے کام) کے بارے میں پوچھتا تھا تاکہ ان میں واقع سے بچوں،چنانچہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم جاہلیت اور شر میں مبتلا تھے کہ اللہ نے ہمیں اس خیر (نعمت اسلام) سے سرفراز فرمایا،تو کیا اس خیر کے بعد بھی کوئی شر ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں ‘‘،میں نے کہا: کیا اس شر کے بعد پھر کوئی خیر ہوگی؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں،لیکن اس میں کدورت اور خرابیاں ہوں گی‘‘ (یعنی وہ خالص خیر نہ ہوگا) میں نے عرض کیا: وہ خرابیاں کیا ہوں گی؟ آپ نے فرمایا: ’’قَوْمٌ یَسْتَنَّوْنَ بِغَیْرِ سُنَّتِيْ،وَیَھْدُوْنَ بِغَیْرِ ھَدْیِيْ،تَعْرِفُ مِنْہُمْ وَتُنْکِرُ‘‘ ’’کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو میری سنت کے علاوہ دوسرے راستے پر چلیں گے،اور میری راہ کے علاوہ دوسرے ذریعہ سے لوگوں کی رہنمائی کریں گے،ان کی بعض باتیں معروف (صحیح) ہوں گی اور بعض منکر (غلط)‘‘،میں نے عرض کیا: کیا اس خیر کے بعد پھر کوئی شر ہوگا؟ فرمایا: ’’نَعَمْ،دُعَاۃُ عَلٰی أَبْوَابِ جَہَنَّمَ مَنْ أَجَابَہُمْ إِلَیْھَا قَذَفُوْہُ فِیْھَا‘‘ ’’ہاں،کچھ لوگ جہنم کے دروازہ پر بیٹھے آواز لگا رہے ہوں گے،جو ان کی بات مان لے گا وہ اسے جہنم میں دھکیل دیں گے‘‘۔میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اوصاف بتا دیجئے! آپ نے فرمایا: ’’نَعَمْ،قَوْمٌ مِنْ جِلْدَتِنَا وَیَتَکَّلُمْوَن
|