میں سے دس ریال تو اس نے خالص اللہ کے لیے صدقہ کیے،پھر بقیہ دس ریالوں میں ریاکاری شامل ہوگئی تو پہلا صدقہ مقبول ہے اور دوسرا صدقہ باطل،کیونکہ اس میں اخلاص کے ساتھ ریاکاری شامل ہوگئی ہے۔
ب: یہ کہ عبادت کے ابتدائی حصہ کا آخری حصہ سے ربط اور تعلق ہو۔ایسی صورت میں وہ انسان دو حالتوں سے خالی نہیں :
پہلی حالت: یہ ہے کہ ریاکاری اس کے دل میں کھٹکی ہو پھر اس نے اسے دفع کردیا ہو اور اس کی طرف التفات نہ کیا ہو،بلکہ اس سے اعراض اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہو،اس صورت میں بلا اختلاف ریاکاری سے اسے کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
(( إِنَّ اللّٰہَ تَجَاوَزَ لِأُمَّتِيْ مَا حَدَّثَتْ بِہٖ أَنْفُسُہَا مَا لَمْ یَتَکَلَّمُوا أَو یَعْمَلُوْا۔)) [1]
’’ بے شک اللہ عزوجل نے میری اُمت کے دلوں میں کھٹکنے والی چیزوں کو معاف کردیا ہے،جب تک کہ وہ اسے کہہ نہ دیں یا اس پر عمل نہ کرلیں۔‘‘
دوسری حالت: یہ ہے کہ ریاکاری اس کے ساتھ بدستور لگی رہے اور وہ اس سے مطمئن ہو،اسے دفع نہ کرے بلکہ اس سے خوش ہو،ایسی حالت میں صحیح رائے کے مطابق اس کی پوری عبادت باطل اور ضائع ہوجائے گی،کیونکہ اس کا ابتدائی حصہ آخری حصہ سے مربوط ہے۔[2]
۴: ریاکاری عبادت سے فارغ ہونے کے بعد ہو،[3] چنانچہ اگر مسلمان خالص اللہ کے لیے
|