النَّار۔)) [1]
’’ اس مقصد سے علم نہ حاصل کرو کہ اس کے ذریعہ تم علماء پر فخر کرو،نہ اس لیے کہ اس کے ذریعہ کم علموں سے بحث و مباحثہ کرو اور نہ اس لیے کہ اس کے ذریعے مجلسوں کا انتخاب کرو،جس نے ایسا کیا اس کے لیے جہنم ہے۔‘‘
ابن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
((لَا تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ لِثَلَاثٍ : لِتَمَارَوْا بِہِ السُّفَہَائَ،وَتَجَادِلُوْا بِہِ الْعُلَمَائَ،وَلِتَصَرَّفُوْا بِہِ وُجُوْہَ النَّاسِ إِلَیْکُمْ،وَابْتَغُوْا بِقَوْلِکُمْ مَا عِنْدَ اللّٰہِ فَاِنَّہُ یَدُوْمُ وَیَبْقِیْ وَیَنْفُدُ مَا سِوَاہُ۔)) [2]
’’ تین مقاصد کے لیے علم نہ حاصل کرو: تاکہ بے وقوفوں سے بحث و مباحثہ کرو،علماء سے جھگڑا اور مناظرہ کرو اور اس سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرو،بلکہ اپنے قول سے وہ چیز (جنت) طلب کرو جو اللہ کے پاس ہے،کیونکہ وہی چیز باقی رہنے والی ہے اور جو کچھ اس کے علاوہ ہے ختم ہوجانے والا ہے۔‘‘
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اللہ کے لیے عمل کرنے والے کے لیے سعادت و نیک بختی کی ضمانت لی ہے،چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے:
((مَنْ کَانَتِ الْآخِرَۃُ ہَمَّہُ جَعَلَ اللّٰہُ غِنَاہُ فِي قَلْبِہٖ،وَجَمَعَ لَہُ شمْلَہُ،وَأَتَتْہُ الدُّنْیَا وَہِیَ رَاغِمَۃٌ،وَمَنْ کَانَتِ الدُّنْیَا ہَمَّہُ جَعَلَ اللّٰہُ فَقْرَہُ بَیْنَ عَیْنَیْہِ،فوَفَرَّقَ عَلَیْہِ شَمْلَہُ،وَلَمْ یَأتِہٖ مِنَ الدُّنْیَا إلَّا
|